دو وارنٹ، دو کہانیاں: اڈانی اور نیتن یاہو کی قانونی جنگ
اِن دِنوں دو وارنٹ موضوع بحث ہیں ۔ ایک وہ ہے جو مشہور صنعتکار گوتم اڈانی، اُن کے بھیتجے اور دیگر چند افراد کے خلاف جاری کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف جاری کیا جاچکا ہے۔
اِن دِنوں دو وارنٹ موضوع بحث ہیں ۔ ایک وہ ہے جو مشہور صنعتکار گوتم اڈانی، اُن کے بھیتجے اور دیگر چند افراد کے خلاف جاری کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف جاری کیا جاچکا ہے۔
گوتم اڈانی کے خلا ف فرد جرم عائد کردی گئی ہے اور اب وارنٹ جاری کرکے اُنہیں عدالت (امریکی) کے روبرو حاضر ہونے کیلئے کہا جائیگا تاکہ وہ الزامات کے پیش نظر اپنی صفائی پیش کریں ۔ کیا وہ امریکی عدالت میں حاضر ہوں گے؟ اگر نہیں تو کیا اُنہیں گرفتار کیا جائیگا؟ کیا بیرونی ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے پہلے ہندوستانی ایجنسیاں اُن سے پوچھ تاچھ کریں گی اور اگر ضرورت پڑی تو کیا اُنہیں گرفتار کریں گی؟ یہ سوالات اس لئے قبل از وقت ہیں کہ گوتم اڈانی کے اثرو رسوخ سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ہندوستانی ایجنسیاں اُن سے باز پُرس کریں اس کا امکان کم ہے اور ’’کم ‘‘ سے ہماری مراد ’’بالکل نہیں ‘‘ ہے۔ رہا سوال بیرونی ایجنسیوں کا تو اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ جنوری میں منصب صدارت پر جلوہ افروز ہونے والے نئے صدر امریکہ یعنی ڈونالڈ ٹرمپ، جو خود بہت بڑے صنعتکار ہیں ، اس معاملے کو کس چشمے سے دیکھتے ہیں ۔ کیا وہ ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کا چشمہ پہنیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو وہ عدالتی کارروائی میں مخل ہونے کی زحمت نہیں کرینگے۔ اگر اُن پر ہندوستان سے معاشی مفادات کے حصول کاجذبہ غالب آگیا اور اُنہیں ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کو کچھ دیر بھول جانے کی سوجھی تو وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے گرفتاری کو بھاری جرمانے میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں گرفتاری بعید از امکان ہے کیونکہ ایک صنعتکار، دوسرے صنعتکار سے صنعتی مفادات وابستہ کرنا چاہے گا، کوئی جھگڑا ہے تو اُسے رفع کرنے کو ترجیح دیگا۔ پھر اڈانی، ٹرمپ کی فتح پر نہایت جوش و خروش سے بڑے عمدہ الفاظ میں مبارکباد بھی تو دے چکے ہیں !
اریسٹ وارنٹ نیتن یاہو کے خلاف جاری کیا جاچکا ہے۔ بھیانک جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم کے سرپر وارنٹ اور گرفتاری کی تلوار کئی مہینوں سے لٹک رہی تھی مگر اس کے ڈر سے اُنہوں نے نہ تو غزہ کو ناکردہ گناہی کی سزا دینے میں کچھ کمی کی نہ ہی لبنان کو بخشا۔ اُن کے تیور اب بھی ویسے ہی ہیں جیسے جنگ کے ابتدائی مہینوں میں تھے۔ اُن سے اُن کے عوام ناراض ہیں ۔ اُن سے کئی مغربی طاقتیں بھی خوش نہیں ہیں مگر وہ ہیں کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ کوئی نہ کوئی ضمانت تو اُن کے پاس ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی خود بہت بڑی ضمانت ہے۔ اس لئے، نیتن یاہو کی گرفتاری کا بھی امکان کم کم ہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دُنیا میں طاقت ہی سب کچھ ہے۔ جس کے پاس طاقت ہے وہ اپنا راستہ بنا لیتا ہے خواہ عدالت راستہ روکنے کی کوشش کرے۔ اڈانی اڈانی ہیں ، اُن کی پشت پناہی غیر معمولی ہے۔ یاہو بھی یاہو ہیں اور اُنہیں بھی غیر معمولی پشت پناہی حاصل ہے۔ باقی رہ گئے جمہوری تقاضے، حق و انصاف کی آواز، عدالتی فیصلے، وارنٹ، گرفتاری کی باتیں وغیرہ تو چونکہ یہ سب بھی ضروری ہے اس لئے یہ سب بھی جاری ہے۔ مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ٹرمپ نہ تو امریکی سرمایہ کاروں کو بہلا سکتے ہیں نہ ہی عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف اُٹھنے والی آوازں سے چشم پوشی کر سکتے ہیں اسلئے یہ ممکن ہے کہ علامتی گرفتاریوں سے کام چلایا جائے۔ کسی دن ایسا ہوجائے تو حیرت ہوگی، نہ ہو توہم کہیں گے دریں چہ حیرت؟