سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی
از:جی ایم بٹ
جموں کشمیر حکومت کا ایک مخصوص گروپ عمرہ کے سفر پر ہے ۔مذکورہ گروہ نے پہلے مکتہ المکرمہ میں عمرہ کے لوازمات پورے کئے ۔ اس کے بعد پورا گروہ مدینہ منورہ کی طرف چل پڑا ۔ اس دوران پورے گروہ کے قدم قدم پر فوٹو لئے گئے جو ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے مشتہر بھی کئے گئے ۔ لوگوں نے اپنے لیڈروں کو مذہبی امور ادا کرتے دیکھا تو اس پر بڑی مسرت کا اظہار کیا گیا ۔ حج یا عمرہ کے لئے وہی لوگ جاتے ہیں جو اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق گزارتے ہیں ۔ کلمہ طیبہ کے اعلان کے ساتھ نماز، روزہ ، زکوات اور دوسری اسلامی عبادات کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کشمیر حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو انتہائی دیندار، باوقار اور صالح ہیں ۔ حکومت ملتے ہی انہوں نے تمام مصروفیات کو چھوڑ کر اللہ کے گھر میں حاضری دینا ضروری سمجھا اور ایک اہم دینی ذمہ داری ادا کی ۔ آگے جاکر توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت کے یہ اہم ارکان کسی بھی طرح کہ غیر ذمہ دارانہ روش نہیں دکھائیں گے ۔ خاص طور سے مدینہ منورہ میں انہوں نے ایک ایسے حکمران کے روضہ اطہر پر حاضری دی جو پندرہ سو سال پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا ہے ۔ لیکن آج تک اس کا نام زندہ ہے اور ان کی تعظیم کی جاتی ہے ۔ اپنی 23 سالہ نبوی زندگی میں 13سال انہوں نے مکہ میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے میں گزارے اور صرف زندگی کے آخری 10سال مدینہ میں حکومت کی ۔ اس دوران دن رات جنگی مہموں اور سخت خوف وہراس میں رہے ۔ تاہم ایک مختصر ریاست کے لئے جو اصول و ضوابط مقرر کئے اس وجہ سے ان کی حکومت کو ہر لحاظ سے ایک آئیڈیل حکومت مانا جاتا ۔ اسلام میں حج اور عمرہ کی جو تاکید کی گئی ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں یہاں آکر دیکھیں کہ اللہ کے نبی نے کہاں اور کس طرح سے اپنی زندگی گزاری۔ آج کل کے زمانے میں ان مقامات مقدسہ کاسفر کرنا آسان بن گیا ہے ۔لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےجس دور میں یہاں اسلام کی دعوت دی پھر عدل و انصاف کا ایک مضبوط نظام قائم کیا وہ زمانہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے انتہائی مشکل زمانہ تھا ۔ اس کے باوجود انہوں ہمت نہیں ہاری اقر دنیا کو انصاف پر مبنی نظام سے آشکار کرایا ۔ اسلام کے ساتھ دشمنی رکھنے کے باوجود حقیقت پسند لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نظام مصطفے دنیا کا بہترین نظام ہے ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ عمر عبداللہ اور ان کے ساتھی واپس آکر حقیقت پسند کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے ۔ایسا نہیں کہ وہ اسلام کا نظام قائم کرنے میں لگ جائیں گے ۔آپ جس پارٹی کے سربراہ ہیں اور جن عوامی نمائندوں نے انہیں وزیر اعلی بنایا ہے وہ سیکولرازم پر ایمان رکھتے ہیں ۔ تاہم سیکولرازم کی بھی اپنی ایک پہچان اور بنیاد ہے ۔ ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر عوام کی خدمت کی جائے تو سمجھا جائےگا کہ عمرعبداللہ نے عمرہ سے عوامی خدمت کا بہترین سبق حاصل کیا ہے ۔
ایک ایسے زمانے میں جبکہ کشمیر کے عوام غریبی اور مفلسی کاشکار ہیں ۔ نوجوان بےروزگاری سے تنگ آکر اپنی زندگیاں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غربت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ سرکار کی طرف سے حج کے لئے مقرر کئے گئے کوٹا کے مطابق فارم نہیں بھرے جاتے ہیں ۔ کچھ سال پہلے صورتحال یہ تھی کہ مقررہ حد سے زیادہ تعداد میں درخواست وصول ہونے کے بعد قرعہ اندازی کرنا پڑتی تھی ۔ بلکہ مرکزی سرکار سے کوٹا بڑھانے کے لئے گزارش کرنا پڑتی تھی ۔ پھر بھی کچھ لوگ حج پر جانے کی آرزو پورا نہیں کرپاتے تھے ۔ اس دوران ہمارے وزیر اعلی نے اپنے والد اور حلقہ یاراں سمیت عمرہ کرنے کو ترجیح دی ۔ ان کے جزبہ عبادت اور عمرہ کی دینی فضیلت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم کئ حلقوں کا کہنا ہے کہ عمرہ پر آئے اخراجات کو غریب عوام پر خرچ کیا جاتا تو اللہ کے یہاں زیادہ فضیلت کا باعث بن جاتا ۔ شرعی اور فقہی ضوابط اپنی جگہ ۔ اس کے باوجود ایک حکمران کی ذمہ داریوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ایک حکمران کے لئے جو ذمےداری مقرر کی گئی ہے وہ پس پشت نہس ڈالی جاسکتی ہے ۔ حکمران کو سب سے پہلے اپنی رعایا کی ضروریات کو پورا کرنا ہے ۔ پھر کہیں نفلی عبادات کی گنجائش بنتی ہے ۔ نہیں تو ان کاموں سے پرہیز کرنا بہتر ہے ۔ حاجی کہلانا آسان ہے ۔ ایک عادل اور بہتر حکمران کہلانا بہت مشکل ہے ۔