ملیشیاء میں اردو مشاعرہ اور علمی مجالس
پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی
میرا سفر اس بار ملیشیا کا بڑا مصروف رہا میں چند روز دہلی میں قیام کرنے کے بعد انڈین ائر لائنز سے ملیشیا کے لئے ۲۵ اکتوبر ۲۰۲۴ کو روانہ ہوا ۔صبح سویرے میں کولالمپور کے ائر پورٹ پر پہونچا الحمدللہ اور برادر فوزی اور برادر فضلی میرے استقبال کے لئے پہلے سے ہی ائر پورٹ پر موجود تھے چنانچہ امگریشن کے لوازمات کو پورا کرنے کے بعد ہم لوگ سیدھے ISTAC میں میری قیام گاہ جو ایک بڑی کوٹھی کے اوپری منزل میں ہے پہونچے اس دن آرام کیا اور دوسرے دن گمبک کیمپس میں اپنی بچی کے ساتھ اس کے یونیورسٹی میں داخلے کے لوازمات پورا کرنے کے لئے گئے اور وہاں بہت سارے دوستوں آشناؤں اور طلباء و محققین سے ملاقات ہوئی۔
کئی روز تک ISTAC سے Gombak کیمپس آنا جانا جاری رہا ISTAC ایک علمی وتحقیقی اسلامی ادارہ بن کے ابھرا ہے اور یہ اسلامک یونیورسٹی کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور ایک لحاظ سے اگر اس کو ایک تھنک ٹینک کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا پہلے یہ ایک ادارہ تھا اور اس کی نیو ملائیشیا کے مشہور محقق اور اسلامی اسکالر پروفیسر سید نقیب العطاس نے رکھی ہے اور مجھے اس ادارے میں ۲۰۱۵ میں پہلی بار موقعہ ملا تھا اور اس زمانے میں جو وہاں سی ای او تھے پروفیسر کمال ہاشمی ان سے ملاقات ہوئی تھی اور میرے ساتھ IIIT ساوتھ ایسٹ ایشیا کے اہم رکن شہران کاسم تھے اور کافی دیر تک اس بار وہاں علمی گفتگو ہوئی تھی غزالی اور دوسرے علمی موضوعات زیر بحث آئے تھے اور چونکہ اس زمانے میں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کا سربراہ بھی تھا اور ہم ادارے سے Insight Islamicus کے نام سے ایک علمی اور تحقیقی رسالہ بھی شائع کرتے تھے جس کے اجراء کا سہرا الحمد للہ میرے سر جاتا ہے اور جس کانام پروفیسر یونس گیلانی صاحب نے تجویز کیا تھا اور میں اس کا بانی مدیر کار اور بہت برسوں اس کا Chief editor بھی رہا ہوں اس کے کئی شمارے میں نے پروفیسر کمالی صاحب کو بطور هديه پیش کئے اور انہوں نے اس جریدے کو بہت سراہا تھا اس جریدے کی اشاعت اور ادارتی دیکھ ریکھ پروفیسر عبد الرشید بٹ نے جس طرح سالہا سال تک کی اس کا ذکر نہ کرنا ایک علمی خیانت ہوگی ۔ڈاکٹر عبد الرشید بٹ صاحب نہایت قابل استاد محقق اور مدیر رہے ہیں اور ان کی سنجیدہ تحریریں اور علمی و تحقیقی نگارشات کے علاوہ انہوں نے کئی علمی جریدوں میں ادارتی کارنامے انجام دیے ہیں اور میرے ساتھ وہ اس جریدے کی کئی دہائیوں تک نکالتے رہے اور اس کے معیار کا خاص خیال رکھا اب پتہ نہیں اس شہر ناپرساں میں اس جریدے کا کیا حال ہے کیونکہ بعد میں جو لوگ آئے انہوں نے ہم لوگوں کے ساتھ اس جریدے اور اس کی اشاعت کے بارے میں کبھی بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا
دوسری بار میں جب فروری ۲۰۲۳ میں ڈاکٹر عبد الحمید ابوسلیمان پر منعقدہ ایک کانفرنس کے لئے ملائشیا آیا ہوا تھا تو مجھے پروفیسر داتک عبد العزیز بر گوٹ جو ISTAC کے ڈین اور عالمی شہرت کے اسکالر ہیں نے امام غزالی پر ایک توسیعی خطبہ دینے کی دعوت دی تھی چنانچہ میں فروری کی بائیس تاریخ کو جب ISTAC پہونچا تو مجھے راستے میں ہی یہ جانکاہ خبر سننے کا اتفاق ہوا کہ پروفیسر کمال حسن جو اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ریکٹر رہے تھے ان کا انتقال ہوگیا ہے اسلئے میں سوچ رہا تھا کہ شاید میرا لیکچر حسب پروگرام منعقد نہیں ہوگا لیکن پروفیسر عبد العزیز برگوٹ نے میرے ہوٹل گاڑی بھجوائی اور جب میں ISAC پہونچا تو گیٹ پر میرے استقبال کے لئے تشریف فر ما تھے مجھے بڑی محبت کے ساتھ گلے لگایا اور اپنے کمرے میں لے گئے میری خاطر تواضع کی اور مجھے بتایا کہ انہیں افسوس ہے کہ وہ خود میرے لیکچر میں شامل نہیں رہ پائیں گے کیونکہ انہیں پروفیسر کمال حسن کے جنازہ میں شمولیت کرنی ہے مگر میرا توسیعی لیکچر ہوگا اور اس کی صدارت ڈاکٹر امتیاز یوسف کریں گے اور نظامت کا فریضہ ڈاکٹر محمد ناصر نسریں انجام دیں گے میں نے خواہش ظاہر کی کہ اس پروگرام کو ملتوی بھی کیا جاسکتا ہے انہوں نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ آپ کو ہم لوگوں نے مدعو کیا ہے خیر میرا توسیعی خطبہ ہوا اور اس میں بہت سارے لوگوں نے شرکت کی اور آن لائن بھی ایک اچھی تعداد لیکچر کے دوران موجود تھی اور پھر سوال جواب کا سلسلہ چل پڑا۔
چنانچہ جب اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے مجھے قبل از وقت سبکدوش ہونے کا کارنامہ انجام دیا تو کچھ ہی عرصے بعد مجھے ISARC کے سر براہ نے visiting Researcherکی پیش کش کی اور میں نے یہ پیش کش قبول کی اور میں باقاعدہ ایک ریسرچ پروجکٹ پر کام کرنے پر راضی ہوا اس کے علاوہ میرے ذمہ بین الاقوامی علمی معاہدات اور تحقیق و تدریس کے عالمی تبادلے اور علمی خطبات پیش کرنے اور یونیورسٹی کے دونوں کیمپس میں ورک شاپ اور لیکچرز منعقد کرنے کی ذمہ داری بھی دی گئی اور مجھ سے کہا گیا کہ میں ایک تحقیقی مقالے پر کام کروں جو اس بات کا جائزے پر مشتمل ہو کہ کس طرح مسلم فکر و فلسفہ میں انظمامی عمل integration of Knowledge کا اصول کارفر ما رہا ہے چنانچہ میں نے بہت سارے پروگرام منعقد کئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے
خیر اس بار بھی میں نے کئی اہم خطبات اور ورک شاپ نہ صرف ISTAC میں منعق کئے بلکہ ترنگانو کی UniZA یونیورسٹی اور کولالمپور کی یونیورسٹی ملایا میں بھی کئی ورک شاپ اور لیکچر منعقد کئے جس کی تفصیل میں بعد میں دوں گا
اس بار میں نے یہاں کے علماء اور سکالرز کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں اور انسان کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس میں شمولیت بھی کی اور اس میں لیکچر بھی دیا ۔میں نے یونیورسٹی کے نئے ریکٹر پروفیسر عثمان بکر کے ساتھ ملاقات کی اور ان کو اس عہدے پر تعیناتی پر مبارک بادی دی اور ۵ نومبر کو ان کے افتتاحی لیکچر کے اوپر تبصرہ بھی کیا اور ان سے سوالات بھی پوچھے اس کے علاوہ یونیورسٹی کے اس اہم پروگرام کے موقعے پر پروفیسر عمر جدولی جو IIIT امریکہ کے سکریٹری جنرل ہیں سے بھی ملاقات کی اور وہاں میں نے نئے ریکٹر اور عمر کسولے کے ساتھ کھانا بھی تناول کیا اس کے علاوہ IIIT south east Asia کے سربراہ داتو عثمان جمیل سے کئی بار ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا اور ان سے کولالمپور ائر پورٹ پر بھی اس وقت ملاقات ہوئی جب میں ترنگانو جارہا تھا اور وہ کمبوڈیا میں ایک نئی یونیورسٹی کے افتتاح کے موقعے پر خاص مہمان کے طور شرکت سے جارہے تھے اور وہاں ان کو ایوارڈ سے نوازا جانا تھا میں نے اس دورے کے دوران اپنے رفقاء برادرم محمد ابراھیم جو ملائشیا میں کشمیر آرٹس اور قالین کی تجارت کرتے ہیں ان سے ملاقاتیں کیں اس کے علاوہ انور حسین صاحب جو ایک تاجر ہیں مگر انہوں نے قرآن پاک کا ایک نہایت ہی آسان انگریزی ترجمہ کیا ان سے کئی ملاقاتیں کیں اور ان کے ساتھ ظہرانوں اور عشائیوں میں شرکت کی میں نے ان کے ترجمے اور مختصر تفسیر کی تصحیح کی ہے اور اسپر تقریظ بھی لکھی اور علوم قرآنی اور تاریخ نزول قرآن پر ایک مبسوط مضمون بھی لکھا ہے پروفیسر جاسر عودہ کے ساتھ کئی علمی ملاقاتیں ہوئیں اور تبادلہ خیالات بھی ۔میرے کئی مضامین بھی اس بیچ ملائیشیا انٹر نیشنل یونیورسٹی کے جریدوں میں اشاعت پذیر ہوئے اسی طرح کئی کتابیں میں نے اشاعت کے لئے بھیجی ہیں یہاں کے اداروں کو۔