Blogs & Articles

تصوف کے ذریعے ہم آہنگی کا فروغ – Chattan Daily Newspaper

سید امجد حسین

اولیاء کی وادی یعنی کشمیر میں اتحاد اور امن کی کشمیری تصوف کی میراث۔ یہاں تصوف کو، اسلامی تصوف اور مقامی روایات کے امتزاج کے ساتھ، زبردست فروغ ملا، جس نے خطے کی روح زندہ کی، اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ثقافتی، روحانی اور سماجی اخلاقیات اور اجتماعی شناخت یعنی کشمیریت کو فروغ دیا۔
کشمیر میں تصوف، وادی میں صوفی سنتوں کی آمد کے ساتھ 13 ویں صدی میں آیا، جو اب تک اس مقامی رشی روایت کے فروغ تک باقی ہے۔ یہ ایک وسیع مذہبی اور فلسفیانہ روایات کو، ایک خاص روحانی ثقافت میں جذب کرنے کی وادی کی صلاحیت کا ثبوت ہے، جو مذہبی اور سماجی رکاوٹوں سے بالاتر ہے۔

تصوف کی ابتدا: تصوف کا راستہ
تصوف ساتویں صدی میں اسلام کے اندر ایک صوفیانہ معمول کی شکل میں شروع ہوا۔ اس کا مقصد محبت، عاجزی، اور تزکیہ نفس کے ذریعے معرفت الہی حاصل کرنا تھا۔ لفظ “صوفی” کا مآخذ عربی لفظ صوف ہے، جس سے مراد اون ہے، کیونکہ دور اوائل کے صوفیاء اون کے موٹے کپڑے پہنا کرتے تھے۔ ان صوفیاء نے دنیاوی مال و متاع سے لاتعلقی اور خود شناسی، روحانی بیداری اور معرفت خداوندی کے حصول پر توجہ مرکوز کی۔
تصوف کا یہ راستہ روحانی تبدیلی کے سات مراحل پر مشتمل ہے۔ ان سات مراحل میں توبہ، پرہیزگاری، ترک دنیا، غربت، صبر، توکل علی اللہ اور راضی برضائے الہی شامل ہیں۔ یہی اصول تصوف کی بنیادیں ہیں، جو بعد میں کشمیر میں رائج ہو گئے – ایک ایسی سرزمین جو پہلے سے ہی روحانیت اور فلسفے کی ایک شاندار میراث رکھتی تھی۔

کشمیر میں تصوف: ایک انوکھا امتزاج
کشمیر میں تصوف کی بنیاد حضرت بلبل شاہ نے رکھی تھی، جو ایک سہروردی سلسلے کے بزرگ تھے، جو 13ویں صدی میں راجہ سہدیو کے دور میں وادی میں تشریف لائے۔ محبت، ہمدردی اور مساوات پر ان کی تعلیمات نے لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر دی، اور انہیں اس وقت کی ذات پات کی درجہ بندی اور سماجی و اقتصادی عدم مساوات کے مقابلے میں ایک نعم البدل ملا۔ حضرت بلبل شاہ نے وادی میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے روحانی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔
حضرت میر سید علی ہمدانی، جنہیں اکثر شاہ ہمدان کے نام سے جانا جاتا ہے، انہوں نے 14ویں صدی میں اس خطے پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ وہ کبروی سلسلے سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم عالم، صوفی اور ولی تھے۔ وہ 700 مریدوں کے ساتھ کشمیر تشریف لائے۔ انہوں نے بنیادی طور پر توحید (خدا کی وحدانیت)، اخلاص (دل کی پاکیزگی) اور تقویٰ کی تبلیغ کی۔ تاہم، تصوف روحانیت کی تبلیغ کے علاوہ، شاہ حمدان نے وادی میں شال بُننے جیسی دستکاری کے ہنر کو بھی متعارف کرایا، اور سماجی و اقتصادی ترقی میں اپنا تعاون پیش کیا، جو بعد میں کشمیر کی معیشت کی ایک مضبوط بنیاد بنی۔
سہروردیہ اور کبرویہ سلسلے نے مضبوط بنیادیں قائم کیں، لیکن رشی روایت نے ہی کشمیری تصوف کو سب سے ممتاز اور نمایاں کیا۔ یہ مقامی تصوف و روحانیت، جو اسلام کے اسلاف اور اولیاء کاملین کی تعلیمات پر مبنی تھی، کشمیری شیو مت اور ہندو روایات کا ایک حسین امتزاج تھی۔

رشی سلسلہ ایک ہم آہنگ روحانی تحریک تھی
رشی سلسلہ، جس کی قیادت نند رشی نے کی، جنہیں حضرت شیخ نور الدین ولی بھی کہا جاتا ہے، کشمیری تصوف کا منتہائے کمال ہے۔ نند رشی 14ویں صدی کے آخر میں پیدا ہوئے تھے اور وہ لال دید سے زبردست متاثر تھے، ایک شیو بھکت جو قدامت پرستی کے خلاف انقلابی کارروائی میں پیش پیش تھے، اور وحدت ادیان کی تبلیغ کرتے تھے۔ لال دید کی شاعری، “لال واخ” نے سخت مذہبی معمولات کو چیلنج کیا اور محبت الہی کی عالمگیریت کو فروغ دیا۔
نند رشی کی تعلیمات تصوف اور شیو مت کے اصولوں کا سنگم ہیں۔ انہوں نے عالمگیر محبت، امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کی قدروں کی تبلیغ کی۔ سبزی خوری، عدم تشدد اور مساوات پر ان کی تعلیمات نے ہر مذہب اور ہر سماج کے لوگوں کو متاثر کیا۔ مختلف مذہبی برادریوں کو یکجا کرنے والے، نند رشی کی وراثت نے انہیں مسلمانوں اور کشمیری پنڈتوں دونوں کی نظروں میں معزز و مکرم بنا دیا۔
رشی سلسلے میں کئی دوسرے عظیم سنتوں نے جنم لیا، مثلا ریش میر صائب، روپا بھوانی، اور شنکر رازدان، اور ان سبھوں نے کشمیر کے روحانی ورثے کو مزید تقویت بخشی۔ ان سنتوں نے کشمیریت کے فلسفے کی نمائندگی کی، جو کہ تنوع، رواداری اور بقائے باہمی کی اجتماعی شناخت سے عبارت ہے۔

کشمیریت: ہم آہنگی کی ثقافتی اخلاقیات
رشی صوفی روایت کشمیریت یعنی کشمیر کی منفرد ثقافتی اقدار کی بنیاد بن گئی۔ یہ فلسفہ مذہبی حدود سے ماورا ہے، جو سماجی انصاف، مساوات اور بقائے باہمی کی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ کشمیری مسلمان اور پنڈت تہواروں، مزاروں اور ثقافتی تقریبات کا اشتراک کرتے، جس سے وادی کے ہم آہنگی کے جذبے کی عکاسی ہوتی۔
راسخ العقیدہ طریقے، مثال کے طور پر نند رشی اور لال دید نے، راسخ العقیدہ نظریات کو چیلنج کیا۔ جبکہ ان کے انسانیت نواز پیغامات نے خدا کے ایک ہونے اور تمام مذاہب کے برابر ہونے پر زور دیتے ہوئے، عوام کو متحد کیا۔ اس کی وجہ سے تنوعات کی قدر کرنے والے ایک تکثیری نظام کا آغاز ہوا۔

کشمیری تہوار اور رسومات سیکولر ہو گئے، مسلمانوں اور ہندوؤں نے ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کی۔ صوفی مزارات، جنہیں درگاہوں کے نام سے جانا جاتا ہے، روحانی اور سماجی زندگی کے مراکز بن گئے، جہاں ہر مذہب و ملت کے لوگ آنے لگے۔

کشمیریت کو درپیش چیلنجز
20ویں صدی کا آخری دور کشمیریت کے ہم آہنگ تانے بانے کے لیے ایک سخت چیلنج ثابت ہوا۔ 1989 میں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہونا شروع ہوا، جس کے نتیجے میں کشمیری پنڈتوں کی المناک ہجرت ہوئی، جس سے بین المذاہب ہم آہنگی تار تار ہوئی، جو صدیوں سے وادی کا حسن و جمال تھی۔ سیاسی اور مذہبی تنازعات نے سماجی تانے بانے کو ادھیڑ کر، تقسیم کے بیج بو دیے جو آج تک برقرار ہیں۔
ان سب کے باوجود کشمیری صوفی میراث اب بھی زندہ ہے۔ یہ شاہ ہمدان اور نند رشی جیسے صوفی سنتوں کی تعلیمات کے ذریعے، بین المذاہب مکالمے اور روحانی اور ثقافتی اتحاد کی کوششوں کو فروغ دیتا ہے۔

تصوف کا احیاء: امن کا راستہ
بڑھتی ہوئی مادیت پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کے دور میں، تصوف ایک جوابی بیانیہ فراہم کرتا ہے، جو کہ باطنی ترقی، اخلاقی خوبیوں اور انا سے دستبرداری سے عبارت ہے۔ رشی صوفی روایت پر نئے سرے سے زور دیکر کشمیری معاشرے کے سماجی تانے بانے کو دوبارہ مضبوط کیا جا سکتا ہے۔

کشمیر میں تصوف کے احیاء کی کوششوں میں درج ذیل باتیں شامل ہو سکتی ہیں:
تعلیمی اقدامات: نوجوان نسلوں کو اپنی طرف بلانے کے لیے تعلیمی نصاب میں فلسفہ تصوف متعارف کروایا جائے۔
ثقافتی تقریبات: کشمیری تصوف کے روحانی ورثے پر مشتمل تہواروں، مشاعروں اور موسیقی کے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے۔
بین المذاہب مکالمہ: افہام و تفہیم اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان مکالمے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تیار کیا جائے۔
قیادت: کرشماتی صوفی رہنماؤں کو ابھرنے کا موقع دیا جائے، جو مختلف برادریوں کو اتحاد اور امن کی دعوت دے سکیں۔
تصوف روایتی قدروں کے احیاء میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، جو ان عصری مسائل جیسے کہ غربت، سماجی عدم مساوات اور ماحولیاتی انحطاط کے خاتمے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ ہمدردی کے ساتھ سماجی انصاف اور اجتماعی فلاح و بہبود کی اشد ضرورت اس جدید معاشرے کو ہے۔

نتیجہ: ایک روحانی نشاۃ ثانیہ
کشمیری تصوف نہ صرف ایک تاریخی واقعہ ہے بلکہ ایک زندہ روحانی ورثہ بھی ہے، جس کے ذریعے انسانی فطرت کے بارے میں گہرے بصیرت کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس کے دیگر مقامی فلسفوں کے ساتھ اسلامی تصوف کے امتزاج نے، ایک ایسی روحانی ثقافت کو جنم دیا ہے جس کی اس دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
نند رشی، لال دید، اور شاہ ہمدان جیسے سنتوں کی تعلیمات کا احیاء کر کے، کشمیر کے لوگ اپنی اجتماعی شناخت کی باز یافت کر سکتے ہیں، اور ایک پرامن مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ محبت، ہمدردی اور بقائے باہمی پر زور دیتے ہوئے تصوف کا احیاء، پرانے دور کی تقسیم کو دور کرنے اور دیرپا امن اور اتحاد کی بنیاد ہموار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اپنی روحانی بنیادوں کی باز یافت کے ذریعے، کشمیر ایک بار پھر ‘ولیوں کی وادی’ کا مقام حاصل کر سکتا ہے، جو دنیا کے لیے امن و محبت کا مینارہ نور بنے۔

 


Visit: Valley Vision News

Show More

Online Editor "Valley Vision"

Valley Vision News is your trusted source for authentic and unbiased news from the heart of Kashmir and beyond. We cover breaking news, culture, politics, and stories that matter, connecting local voices to global perspectives. Stay informed with us! "Empower your vision with truth, for every story has the power to change the world."

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button