سلطان صلاح الدین ایوبی: ایک عظیم رہنما کی سیرت اور کارنامے
کامران رضا عطاری
سلطان صلاح الدین ایوبی کا شمار اسلامی تاریخ کے عظیم ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے کردار، حکمت، اور جنگی صلاحیتوں کے ذریعے نہ صرف اپنی قوم کو فتح و کامیابی دلائی بلکہ دشمنوں کے دلوں میں بھی عزت و احترام حاصل کیا۔ وہ نہ صرف ایک بہادر سپہ سالار تھے بلکہ ایک رحم دل، انصاف پسند، اور مدبر حکمران بھی تھے۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو قیادت کے اعلیٰ اصولوں کا مظہر ہے، جسے دنیا آج بھی یاد کرتی ہے۔
صلاح الدین ایوبی 1137 یا 1138 میں تکریت، عراق میں پیدا ہوئے۔ ان کا مکمل نام صلاح الدین یوسف بن ایوب تھا۔ ان کے والد نجم الدین ایوب اور چچا اسد الدین شیرکوہ دونوں ہی نڈر اور بہادر جنگجو تھے، جنہوں نے نوجوان صلاح الدین کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا۔ ان کی پرورش اسلامی تعلیمات اور فوجی تربیت کے امتزاج کے ساتھ ہوئی، جس نے انہیں ایک مثالی مسلمان اور سپہ سالار بنایا۔ صلاح الدین نے اپنی ابتدائی زندگی میں علم، حکمت، اور دین کی گہری سمجھ حاصل کی، جو بعد میں ان کے حکمرانی کے اصولوں کی بنیاد بنے۔
صلاح الدین ایوبی نے اپنی قیادت کی صلاحیتوں کا لوہا سب سے پہلے نورالدین زنگی کی قیادت میں لڑائیوں کے دوران منوایا۔ ان کی جنگی حکمت عملی اور سیاسی مہارت نے انہیں جلد ہی ایک نمایاں مقام پر پہنچا دیا۔ 1174 میں، نورالدین زنگی کی وفات کے بعد، صلاح الدین نے مصر اور شام کے علاقوں میں ایوبی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ان کی قیادت کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے اسلامی دنیا کو متحد کرنے کی کوشش کی، جو اس وقت داخلی انتشار اور فرقہ وارانہ اختلافات کا شکار تھی۔
صلاح الدین ایوبی کی زندگی کا سب سے نمایاں کارنامہ صلیبی جنگوں کے دوران بیت المقدس کی فتح ہے۔ 1187 میں، انہوں نے حطین کی مشہور جنگ میں صلیبیوں کو زبردست شکست دی اور بیت المقدس کو آزاد کروایا۔ اس کامیابی نے نہ صرف اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑائی بلکہ ان کی شخصیت کو عالمی سطح پر مشہور کر دیا۔ وہ ایک ایسے رہنما کے طور پر سامنے آئے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پرعزم تھے، لیکن ساتھ ہی دشمنوں کے ساتھ عزت و وقار سے پیش آتے تھے۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد، انہوں نے عیسائیوں کے ساتھ نرمی اور انصاف کا مظاہرہ کیا، جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
صلاح الدین ایوبی کی قیادت کا ایک اور اہم پہلو ان کی رحمدلی اور انسانیت پسندی تھی۔ وہ دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آتے تھے، جو اس وقت کی جنگی دنیا میں ایک منفرد بات تھی۔ مشہور ہے کہ جب ان کے سب سے بڑے دشمن، رچرڈ شیر دل، بیماری کا شکار ہوئے، تو صلاح الدین نے نہ صرف ان کے علاج کے لیے طبیب بھیجا بلکہ انہیں قیمتی تحائف بھی بھجوائے۔ یہ ان کی شخصیت کی عظمت اور بلند اخلاق کا مظہر ہے۔
صلاح الدین ایوبی نے حکمرانی کے دوران عوام کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے اپنے زیرِ حکومت علاقوں میں عدل و انصاف کا نظام قائم کیا، ٹیکس کے نظام کو منظم کیا، اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں اصلاحات کیں۔ ان کی حکومت میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی خوشحال تھے اور ان کے عادلانہ نظام کی تعریف کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو آج کے حکمرانوں کے لیے ایک مثال ہے کہ قیادت کا مقصد صرف فتوحات حاصل کرنا نہیں بلکہ عوام کی خدمت کرنا بھی ہے۔
صلاح الدین ایوبی کا انتقال 1193 میں دمشق میں ہوا۔ ان کی وفات کے بعد، اسلامی دنیا ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئی۔ وہ اپنی وفات کے وقت بہت کم مال و دولت کے مالک تھے، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ دین اسلام کی خدمت اور عوام کی فلاح و بہبود میں گزارا تھا۔ ان کی یہ قربانی آج بھی مسلمانوں کے لیے ایک تحریک ہے کہ قیادت کا اصل مقصد ذاتی مفادات نہیں بلکہ قوم کی خدمت ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک بہترین رہنما کے لیے اخلاقی کردار، انصاف، اور انسانیت پسندی لازمی صفات ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو ایک مثال ہے، چاہے وہ جنگ کے میدان میں ہو یا حکمرانی کے امور میں۔ ان کا کردار اور کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے، اور وہ اسلامی تاریخ میں ہمیشہ ایک عظیم رہنما کے طور پر زندہ رہیں گے۔
صلاح الدین ایوبی کی شخصیت اور قیادت کو مزید گہرائی سے دیکھیں تو ان کی زندگی کا ہر پہلو عظمت کی داستان سناتا ہے۔ وہ صرف جنگجو یا حکمران ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسے انسان تھے جو دین اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا تھے اور اپنی ذات کو ایک اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کی فتوحات اور انصاف پسند حکمرانی نہ صرف ان کے عہد بلکہ آنے والی صدیوں کے لیے بھی ایک مشعل راہ بنی۔
صلاح الدین ایوبی کی قیادت کا سب سے منفرد پہلو ان کا اپنے دشمنوں کے ساتھ برتاؤ تھا۔ ان کی جنگیں انصاف اور امن کے قیام کے لیے تھیں، نہ کہ ظلم اور جبر کے لیے۔ انہوں نے بیت المقدس کی فتح کے دوران ہزاروں عیسائی قیدیوں کو نہایت شفقت کے ساتھ رہا کیا، حالانکہ صلیبیوں نے ماضی میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے تھے۔ ان کی اس رحم دلی کا اعتراف ان کے دشمنوں نے بھی کیا، اور یہی وجہ ہے کہ وہ عیسائی دنیا میں بھی عزت اور احترام کے ساتھ یاد کیے جاتے ہیں۔
صلاح الدین ایوبی کا ایک اور نمایاں پہلو ان کا اتحاد کے لیے انتھک جدوجہد کرنا تھا۔ انہوں نے اس وقت کی منتشر اسلامی دنیا کو متحد کرنے کے لیے سخت محنت کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی طاقت ان کے اتحاد میں ہے۔ انہوں نے مختلف فرقوں، جیسے شیعہ اور سنی کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور ان کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کے لیے حکمت عملی اپنائی۔ ان کی یہ کاوش نہ صرف سیاسی حکمت کا نمونہ تھی بلکہ ان کے وسیع القلب اور انصاف پسند ہونے کی بھی دلیل ہے۔
صلاح الدین ایوبی کی جنگی حکمت عملیوں کو بھی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ وہ نہایت ذہانت سے اپنے دشمنوں کی چالوں کو ناکام بناتے تھے۔ انہوں نے حطین کی جنگ میں صلیبیوں کے غرور کو خاک میں ملا دیا، اور یہ فتح ایک بڑی اسلامی کامیابی کے طور پر تاریخ میں درج ہو گئی۔ ان کی جنگی حکمت عملی میں صرف طاقت کا استعمال شامل نہیں تھا بلکہ وہ منصوبہ بندی، دشمن کی کمزوریوں کا تجزیہ، اور موقع کی مناسبت سے فیصلے کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی جنگی مہارتیں آج کے فوجی ماہرین کے لیے بھی ایک مثال ہیں۔
حکمرانی کے دوران، صلاح الدین ایوبی نے ایک ایسا نظام قائم کیا جو انصاف، مساوات، اور عوامی خدمت پر مبنی تھا۔ انہوں نے ٹیکس کا نظام اس طرح منظم کیا کہ عوام پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے اور ریاست کے مالی معاملات بھی درست رہیں۔ ان کی حکومت میں تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کیے گئے، اور عوام کی صحت کا خیال رکھا گیا۔ وہ خود کو عوام کا خادم سمجھتے تھے اور حکمرانی کو ایک ذمہ داری کے طور پر دیکھتے تھے، نہ کہ طاقت کے مظاہرے کے طور پر۔
صلاح الدین ایوبی کی زندگی کا ایک اور اہم پہلو ان کی سادگی اور زہد تھا۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے دنیاوی عیش و آرام کو ٹھکرا دیا اور اپنی زندگی کو دین اسلام کی خدمت اور اپنی قوم کی بہتری کے لیے وقف کر دیا۔ ان کی وفات کے بعد جب ان کا سامان شمار کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی ذاتی جائیداد میں بہت کم مال و دولت رکھتے تھے۔ یہ حقیقت ان کی سیرت کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے اور آج کے حکمرانوں کے لیے ایک اہم سبق ہے کہ قیادت کا اصل مقصد ذاتی مفادات نہیں بلکہ عوام کی خدمت ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو ان کی علمی دلچسپی تھی۔ وہ علم کے دلدادہ تھے اور علماء و دانشوروں کی قدر کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی سلطنت میں علمی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی اور تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ ان کی حکمرانی میں لائبریریاں، مدارس، اور علمی مراکز قائم کیے گئے، جہاں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
آج کے دور میں، جب دنیا مختلف قسم کے بحرانوں کا شکار ہے، صلاح الدین ایوبی کی قیادت سے بے شمار اسباق لیے جا سکتے ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک عظیم رہنما وہ ہوتا ہے جو اپنے کردار، عمل، اور حکمت سے لوگوں کے دلوں کو جیت لے۔ ان کی قیادت کی مثال آج بھی نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے رہنماؤں کے لیے مشعل راہ ہے۔
صلاح الدین ایوبی کی زندگی کا ہر پہلو ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ قیادت صرف جنگوں میں فتح حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ دلوں کو جیتنے، انصاف قائم کرنے، اور معاشرے میں امن و امان پیدا کرنے کا ہنر بھی قیادت کا حصہ ہے۔ ان کی زندگی ایک ایسی داستان ہے جو رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ ان کے کارنامے، ان کی حکمت عملی، اور ان کی اخلاقی بلندی کا درس آج بھی ہمیں متحد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی دعوت دیتا ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نہ صرف ایک رہنما بلکہ انسانیت کے علمبردار تھے، اور ان کی زندگی کا ہر پہلو ایک سبق ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک عظیم رہنما تھے، جنہوں نے تاریخ میں اپنے کردار کو سنہری حروف سے لکھا اور دنیا کو دکھایا کہ قیادت کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔