عبداللہ حکومت کا کام کاج ٹھپ
جہاں زیب بٹ
کے بعد عبداللہ حکومت کا کام ٹھپ پڑ گیا ہے ۔دوتہایی سے بھی زیادہ حکومت مقدس سفر عمرہ پر چلی گیی ہے ۔شرعی معنوں میں یہ کو یی سخت دینی فریضہ تو نہیں تھا جس کو ادا کر نے کے لیے حکومت کی اتنی بڑی ٹیم سعودی عرب چلی جا نے کے لیے مجبور ہوتی۔۔اس کا محرک منت اور شکرانہ ہو سکتا ہےجس پر اعتراض کی گنجایش نہیں ہے ۔البتہ حکومت کی اتنی بڑی ٹیم کا بیک وقت سعودی چلے جا نا اس بناء پر ممکن اور آسان ہو گیا کہ کاروباری قوانین کی وضاحت ہو ناباقی ہے جو وزیر اعلیٰ ،وزراء اور آفیسروں کے کام کاج کی بحالی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ممکن ہے وزیراعلی نے فرصت کا وقت غنیمت جا ن کر عمرہ پر جا نے کا پرو گرام بنا یا ہو ورنہ ان کو ضرور یہ احساس ہو گا کہ عوام کے مسل و مسایل ہیں ۔دفاتر میں ہزاروں فایلیں رکی پڑی ہیں جن پر گزشتہ چالیس دن سے کو یی کاروائی نہیں ہوتی ۔بہانہ یا جواز کاروباری قوانین ہیں جن پر حتمی فیصلہ ہو نا باقی ہے۔
حالانکہ عمر عبداللہ کو یو ٹی کے پہلے چیف منسٹر کی حثیت سے حلف اٹھا یے پنتا لیس دن ہوگیے لیکن کاروباری قوانین کو لیکر بدستور کنفویزن چھا یا ہو ا ہے جس بناء پر گورننس کی گاڑی رکی پڑی ہے اور عوامی حکومت معمول کا کام کاج سنبھا لنے سے قاصر ہےاور اس کے لیے بڑے حکومتی فیصلے لینا ناممکن بن گیا ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے یوٹی میں حکمرانی کا تعین کر نے اور ضروری قانونی روڑ میپ تیار کر نے کے لیے نایب وزیراعلی سریندر چودھری کی سربراہی میں کابینہ سب کمیٹی تشکیل دی تاہم ایک ماہ کی عمر کی پہنچنے کے باوجود کمیٹی کا کام تشنہ تکمیل ہے اور “بہت جلد” کا دعویٰ میڈیا بھی کررہا ہے’ اور اہم حکومتی عہدیدار بھی۔
یہ بات قابل ذکر ہےکہ 2019 کے تنظیم نو ایکٹ کے تحت ایل جی کے اختیارات اور کام کاج کی ٹھیک ٹھیک وضاحت کی گیی ہے لیکن یو ٹی میں منتخب عوامی حکومت کے لیے کام کے اصول اور ضوابط کا ایکٹ میں کہیں ذکر ہے اور نہ وضاحت ۔چنانچہ جب عبداللہ حکومت نے حلف لیا تو اس کے دایرہ کار کا مسلہ کھڑا ہو گیا ۔قواعد و ضوابط کی کمی کے باعث گورننس پر سوالیہ لگ گیا ۔ایل جی انتظامیہ کے دوران دفاتر میں جس چستی اور سرعت کے ساتھ معمول کی کارواییاں ہوا کرتی تھیں وہ عمل بھی ماند پڑگیا ۔ اس بناء پر کاروباری قوانین کے تعین کی ضرورت اجاگر ہوگیی اور کابینہ سب کمیٹی کو یہ کام سونپا دیا گیا۔جموں کشمیر یو ٹی کا انو کھا تجربہ کررہا ہے۔یہاں ایل جی بھی ہے چیف منسٹر بھی ۔یہ اسمبلی بردار یو ٹی ہے۔اس لیے اختیارات کی تقسیم ایک مشکل مرحلہ بن کر کھڑا
ہو گیا ہے۔سٹیٹس کے اعتبار سے جموں کشمیر میں گورننس کا کون سا ماڈل فٹ آیے گا وہ ایک اہم سوال ہے ۔اس غرض کے لیے پانڈیچری ماڈل کو مناسب اور موزوں سمجھا جا رہا ہے اور اسی کے مطابق جموں کشمیر کے لیے کاروباری قوانین تیار کر نے کا کا م چل رہا ہے ۔نایب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری کے مطابق یہ مشق بہت جلد انجام کو پہنچے گی لیکن ماہرین قوانین کا کہنا ہے کہ ابھی مشق جاری ہے۔پھر پرپوزل ایل جی کو بھیجنا ہے اور اس کے بعد ہوم منسٹری کی منظوری درکار ہے۔لہذا عوامی حکومت کا باضابطہ اور معمول کا کام کاج سنبھا لنے میں اور کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ ادھرپنتالیس دن سے انتظار میں کھڑے
تھکے ہو ے عوام نالاں ہیں ،سایل پریشان ہیں اور
مسل و مسایل حل ہو نے میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔کیی سایلوں نے بتا یا کہ اپنی
عرضییوں کو لیکر انھوں نے دفتری کارواییوں کے سلسلے میں جو مسافت کاٹی تھی کاروباری قوانین میں ممکنہ تبدیلی سے اس کو ریوورس گیر لگنے کا اندیشہ ہے اور پروسیسنگ نیے سرے سے شروع ہوگی۔چنانچہ یہ حلقہ بھی پریشان ہے۔ان حالات میں کام کاج کا فوری تعین اور گورننس کی ہموار بحالی عبداللہ حکومت کی عزت اور اعتبار کا سوال ہے۔قانونی روڑ میپ کی تیاری میں جتنی تاخیر ہو رہی ہے اتنی ہی عوام میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔اور سب کو پتہ ہے کہ جمہوری حکومتیں عوامی مایوسی کی متحمل نہیں ہو ا کرتیں ۔