سٹیٹ ہڈ کی آمد آمد؟
جہاں وحید الرحمان پرہ سمیت اپوزیشن کے کچھ ممبران اسمبلی چیف منسٹر عمر عبداللہ کو دفعہ 370 پر گھیر نے کے لیے مورچہ سنبھالے ہو یے ہیں اور ان کی طرف سے پرایم منسٹر مودی اور سینیر کابینہ وزراء کو کشمیری شال تحایف کے طور پر پیش کر نے کا مذاق اڑاتے ہو یے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے اصل مسلہ حل نہیں ہو گا وہیں عمر عبداللہ پر امید ہے کہ کشمیر پر پیش رفت ہو نے والی ہے اور بہت جلد سٹیٹ ہڈ کا درجہ بحال ہو گا۔
گزشتہ ہفتے سرما یی راجدھانی جموں میں پے درپے دو کابینہ میٹنگیں منعقد کر نے کے بعد وزیر اعلیٰ نے انتخابی وعدوں کے حوالے سے ایک بار پھر یقین دلایا
کہ دھیرے دھیرے ہر کویی وعدہ پورا ہو گا ۔اس سلسلے میں قیدیوں کی رہایی سے متعلق سوال کا
جواب دیتے ہو یے عمر عبداللہ نے یہ دلیل دی کہ امن و قانون کی ذمہ داری ایل جی کے پاس ہے ۔لہذا سٹیٹ ہڈ کی بحالی کا انتظار ضروری ہے جس کے بعد ہی عوامی سرکار اس وعدے کو پورا کرسکتی ہے۔گویا عمر عبداللہ نے اشارہ دیا ،اعتراف کیا کہ یو ٹی میں ایل جی کو
حاصل غیر محدود اختیارات انتخابی وعدوں کی تکمیل میں سنگ راہ ہیں ۔کم اختیارات حاصل ہو نے کا برملا اعتراف کر تے ہو یے عمر عبداللہ نے یہ تاثر دیا کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو یے نہیں ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ لا اینڈ آرڈر کی ذمہ داری حاصل نہ ہو نے کے باوجود انھو ں نے نوکریوں اور پاسپورٹ کے لیے پولیس
ویری فکیشن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر نے کی
پالیسی میں بدلاؤ لا یا ہے اور آگے اس میں اور نرمی برتی جا یے گی ۔
عمر عبداللہ نے دعویٰ کیا کہ یو ٹی اسمبلی نے خصوصی درجہ کی مانگ پر مبنی جو قرارداد پاس کی ہے وہ مسترد نہیں ہویی ہے جس کا ثبوت یہ پیش کیا گیا کہ پرایم منسٹر مودی اور مرکزی وزراء اس پر لب کشایی کر رہے ہیں ۔ مبصرین کے مطابق خصوصی درجہ تو ایک سیاسی نشانہ ہے ،سیاسی ہتھیار ہے،مقامی سیاسی خیالات کی ضرورت ہے ،یہ ایک اچھا سلوگن ہے اور فی الحال کے طور پر جو زمانہ قریب میں قابل حصول چیز خیال کی جارہی ہے وہ سٹیٹ ہڈ کی واپسی ہے ۔یو ٹی کابینہ نے اس کی سفارش کی ہے ایل جی نے اس پر ہاں کی مہر لگادی ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ پرایم منسٹر مودی اور ہوم منسٹر امت شاہ نے نہ صرف پارلیمنٹ میں اس کا وعدہ کیا ہے بلکہ اسمبلی چناؤ کے دوران جموں میں سٹیٹ کی واپسی کاوعدہ دہرا یا ۔اس کے نتیجے میں جموں میں کنول کھل اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی سرکار پر اخلاقی ذمہ داری عاید ہو گیی ہے کہ وہ سٹیٹ ہڈ کی واپسی پر فیصلہ صادر کرے۔
عمر عبدللہ سے تنویر صادق تک این سی قیادت دعویٰ کررہی ہے کہ سٹیٹ ہڈ کی بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔وزارت داخلہ ،ایل جی دفتر اور چیف منسٹر آفس کے درمیان ضروری فایلوں کی ادلا بدلا کا سلسلہ جاری ہے اور غالب امکان یہ ہے کہ آنے والے پارلیمنٹ اجلاس میں سٹیٹ ہڈ کے بارے فیصلہ لیا جا یے گا اور وزیر اعظم مودی از خود اعلان کر تے ہو یے اس کا سہرا حاصل کریں گے۔سٹیٹ ہڈ کی واپسی کو لیکر امید کی زیادہ مضبوط بنیاد پرایم منسٹر مودی کے قو ل وقرار پر کھڑی کی جارہی ہے۔واضح رہے بھاجپا پرایم منسٹر مودی کی امیج اسطرح پیش کرتی آئی ہے کہ وہ جو کہتے ہیں کر تے ہیں ۔یہ پرایم منسٹر مودی کی گارنٹی ہے۔یہ مودی کا وعدہ ہے مشہور اور زبان زد عام جملے ہیں ۔ان کا موقف یہ رہا ہے کہ پہلے حد بندی ،پھر چناؤ اور اس کے بعد سٹیٹ ہڈ کی بحالی۔اس مقررہ ترتیب کے مطابق پرایم منسٹر مودی کے بارے خیال کیا جا تا ہے کہ وہ اب سٹیٹ ہڈ کا وعدہ نبھا نے میں پس وپیش نہیں کر یں گے۔
جموں کشمیر کے عوام بلکہ خود سیاسی لیڈروں کو سٹیٹ ہڈ کے حجم کے بارے شک وشبہات ہیں اور بڑا کنفیوژن ہے کہ آیا یہ ملک کی دوسری ریاستوں کے مساوی سٹیٹ ہڈ ہو گا یا اس خطے کے ساتھ کو ئی امتیاز روا رکھا جا یے گا ۔ بتایا جا تا ہے کہ عبداللہ حکومت اور دلی کے درمیان سٹیٹ ہڈ کی بحالی پر جو بات چیت ہو رہی ہے اس میں تین چیزوں پر اتفاق رایے قایم ہو نے میں دقت پیدا ہو رہی ہے جن میں امن و قانون ،ریو نیو اور انفارمیشن شامل ہیں جن کو مرکز ی سرکار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔لیکن اس میں عمر عبداللہ کو گھریلو سطح پر مخالفت اور پریشانی کا سامنا ہو گا ۔اس پل صراط کو عبداللہ حکومت کیسے پار کریں گے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔