آخری ملاقات – Chattan Daily Newspaper
از:شوکت محمود شوکت
کتاب عمر کے پچاس اوراق وہ پلٹ چکا تھا۔ ان پچاس سالوں میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ہر سال ایک نیا واقعہ اور نئی کہانی اس کے ساتھ پیش آتی رہی ۔ اگر دیکھا جائے تو ان پچاس سالوں کی پچاس کہانیاں تو آسانی سے احاطہ ء تحریر میں لائی جا سکتی تھیں۔ مگر ایک قصہ یا ایک کہانی ایسی بھی تھی جو ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ وہ قصہ یا کہانی اس کی نشاط سے پہلی اور اخری۔ملاقات تھی ۔ نشاط سے پہلی ملاقات اس کی ساحل سمندر کو اکتیس دسمبر کی شام کو ہوئی تھی ۔ جب تمام شہر ، ساحل سمندر پر ” نیو ائیر نائٹ” منانے امڈ آیا تھا ، وہیں نشاط بھی آئی تھی ۔ نشاط کو دیکھتے ہی اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اس کی برسوں کی شناسا ہو۔ وہ دھیرے دھیرے اس کی طرف یوں کھینچتا چلا گیا جیسے مقناطیس کی طرف ، لوہے کے ذرات کھینچتے چلے آتے ہیں۔ نشاط کے قریب پہنچ کر، اس کے منہ پر جیسے تالا لگ گیا ہو۔ اس کے سامنے اس سے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکلا۔ بس وہ نشاط کو تکتا ہی چلا گیا۔ بجلی کی پاور فل لائٹوں اور رنگا رنگ قمقموں میں نشاط کا چہرہ ایسا چمک رہا تھا جیسے چودھویں کا چاند ہو۔ ۔ وہ اس کے سامنے کافی دیر کھڑا رہا ، وہ وہیں بت بن کر کھڑا ہی رہتا کہ اس کے ایک دوست نے اسے اس محویت سے نکالتے ہوئے اس کا کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے سمندر کے مزید قریب چلنے کے لیے کہا ۔۔۔۔
وہ اپنے دوست کے ساتھ سمندر کے قریب جانے کے لیے قدم بڑھا تو رہا تھا مگر ، اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے پاؤں منوں بھاری ہو گئے ہوں یا کوئی جواری اچھی خاصی دولت ہار کر ، تھکا ہارا گھر واپس جا رہا ہو۔
سمندر کے پانی کے قریب پہنچ کر ، دونوں دوست بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگے مگر، اس کا دل گپ شپ میں بالکل نہیں لگ رہا تھا ۔ وہ بار بار، اسی جانب دیکھ رہا تھا جہاں نشاط اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھڑی تھی۔
رات کے بارہ بجنے میں چند منٹس باقی تھے ، دونوں دوستوں نے شاپنگ بیگ سے پٹاخے نکالے تا کہ جیسے ہی بارہ بج جائیں ، نئی تاریخ اور نیا سال شروع ہوں تو یہ پٹاخے فضا میں چھوڑے جائیں اور نئے سال کو اس طرح خوش آمدید کہا جائے۔۔۔
رات کے بارہ بجنے کا سب اہل شہر بےتابی سے انتظار کر رہے تھے کہ اچانک فضا میں ایک نسوانی چیخ بلند ہوئی ” بچاؤ، بچاؤ، بچاؤ” ۔۔۔۔
دونوں دوستوں نے بلا سوچے سمجھے اس سمت دوڑ لگا دی جس طرف سے وہ چیخ سنائی دی گئی تھی ۔ وہاں پہنچنے پر پتا چلا کہ کوئی خاتون سمندر کے کنارے کنارے چل رہی تھی کہ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ سمندر کے پانی میں گر گئی ہے۔
یہ سنتے ہی اس نے سمندر کے پانی میں اسی سمت چھلانگ لگا دی ، جس طرف لوگ اشارہ کر رہے تھے کہ اس طرف پانی کا ریلا اسے بہا کر لے گیا ہے۔ چوں کہ وہ ایک اچھا تیراک بھی تھا ، اس نے بڑی مشکل سے اس خاتون کو تلاش کیا ، پھر اسے کنارے تک لانے میں کامیاب ہوا ۔ مگر ، وہ خاتون زندگی کی بازی ہار چکی تھی ۔۔۔
جب اس نے اس کا چہرہ دیکھا تو اسے جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو، وہ نشاط ہی تھی۔۔۔۔۔ یہ نشاط کے ساتھ اس کی آخری ملاقات تھی۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ اس سانحے کے بعد ، وہ کبھی ساحل سمندر کی طرف نہیں گیا اور نہ ہی ” نیو ائیر نائٹ” کے کسی تقریب میں اس نے آج تک شرکت کی۔
Visit: Valley Vision News