اللہ کا کرم اور گناہ گار بندے کا رجوع
از قلم۔ارشد عطاری
کریم رب اور گناہ گار بندے کے درمیان تعلق ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کی زندگی کی گہرائیوں میں جڑی ہوئی ہے۔ انسان اپنی فطرت میں کمزور اور خطاکار ہے، لیکن اس کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور کرم اسے ہمیشہ اپنی جانب بلاتے ہیں۔ یہ تعلق انسان کے دل میں امید اور محبت کا بیج بوتا ہے، جو اسے اپنی زندگی میں بہتری اور اصلاح کی طرف راغب کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی صفاتِ رحمت و کرم کے ذریعے ہر انسان کو اپنے قریب آنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے۔” یہ آیت انسان کو یہ یقین دلاتی ہے کہ خواہ وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، اگر وہ صدق دل سے توبہ کرے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کی کوشش کرے تو اللہ کی رحمت اسے ضرور ڈھانپ لے گی۔ گناہوں کے بوجھ سے انسان بھاری ہو سکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی مہربانی اس بوجھ کو ہلکا کر سکتی ہے۔انسان جب گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے تو شیطان اسے مایوسی میں دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اسے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اللہ اسے معاف نہیں کرے گا یا وہ اپنی خطاؤں کی وجہ سے اللہ کے نزدیک نہیں جا سکتا۔ لیکن اللہ کی صفتِ غفار انسان کو اس مایوسی سے نکالتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔” یہ وعدہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی معافی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، چاہے ان کے گناہوں کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔گناہ گار بندے کے لیے اللہ تعالیٰ کا کرم ایک ایسی پناہ گاہ ہے جہاں وہ اپنی تمام پریشانیوں، خوف اور ندامت کے ساتھ آسکتا ہے۔ گناہ کرنے کے بعد انسان کو جو شرمندگی اور ندامت ہوتی ہے، وہ دراصل اللہ کے قریب آنے کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ندامت کو توبہ کا اہم حصہ قرار دیا ہے اور وہ بندے کو اس کے ذریعے اپنی رحمت کی طرف بلاتے ہیں۔حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “اے آدم کے بیٹے! اگر تم زمین کے برابر گناہ لے کر میرے پاس آؤ لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو تو میں تمہیں اتنی ہی مغفرت عطا کروں گا۔” یہ الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کس قدر مہربان ہیں۔ وہ کسی کو مایوس نہیں کرتے بلکہ ہر وقت بندے کو اپنی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔گناہ گار بندہ جب توبہ کرتا ہے تو یہ عمل نہ صرف اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے بلکہ اس کے دل کو سکون بھی عطا کرتا ہے۔ توبہ ایک ایسا دروازہ ہے جو اللہ کی قربت اور محبت کی طرف کھلتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔” اس آیت میں اللہ نے واضح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ توبہ کرنے والا بندہ اللہ کے نزدیک محبوب ہو جاتا ہے۔ یہ محبت بندے کے دل میں امید کی شمع روشن کرتی ہے، جو اسے مزید نیک اعمال کی طرف راغب کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا کرم صرف معافی تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنے بندوں کی دنیاوی اور اخروی زندگی کو بہتر بنانے کا بھی سامان فراہم کرتے ہیں۔ وہ بندے کی دعا سنتے ہیں، اس کی مشکلات کو دور کرتے ہیں، اور اس کے لیے آسانیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: “تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔” یہ وعدہ بندے کو اللہ کی جانب رجوع کرنے کا ایک بہترین ذریعہ فراہم کرتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا کرم بندے کو یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ جب بھی وہ مشکلات یا گناہوں کے دلدل میں پھنس جائے، وہ اپنے رب کی جانب رجوع کر سکتا ہے اور اس سے مدد طلب کر سکتا ہے۔ یہ یقین بندے کو ایک نئی زندگی شروع کرنے کا حوصلہ دیتا ہے اور اسے گناہوں کی دلدل سے نکال کر نیکی کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔گناہ گار بندے کے لیے اللہ کی رحمت اور کرم اس کی سب سے بڑی امید ہیں۔ یہ تعلق بندے کو مایوسی سے بچاتا ہے اور اسے ایک بہتر انسان بننے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتے اور اسے ہمیشہ اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لیتے ہیں۔آج کے دور میں، جب انسان مختلف قسم کے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، اللہ کا کرم اسے اصلاح کا راستہ دکھاتا ہے۔ یہ کرم بندے کو بتاتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اللہ کی رحمت سے بڑی نہیں۔ اللہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اور وہ اپنے بندے کی ہر پکار کو سنتے ہیں۔انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے کرم پر بھروسہ کرے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اللہ کی محبت اور رحمت ہر گناہ گار کے لیے امید کی ایک کرن ہے، جو اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ کا کرم بندے کے لیے ایک ایسی پناہ گاہ ہے جہاں وہ سکون، محبت، اور رحمت حاصل کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا کرم اس بات کی یاد دہانی ہے کہ بندہ چاہے جتنا بھی گناہ گار ہو، اس کے لیے اصلاح کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ اللہ کی محبت اور رحمت اس کے بندوں کو مایوسی سے بچاتی ہے اور ان کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتی ہے۔ یہ کرم انسان کو اپنی کمزوریوں پر قابو پانے، گناہوں سے دور رہنے، اور نیک اعمال کی طرف رجوع کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ اللہ کی رحمت پر یقین رکھنا چاہیے اور اپنے اعمال کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔