انتظامیہ میں بھا ری ردو بدل
از:جہاں زیب بٹ
یوٹی کی منتخب حکومت نے ایک غیر معمولی کاروائی میں بیس KAS آفیسروں کی فوری تبدیلی کے احکامات صادر کئے ہیں ۔آفیسروں میں ڈائریکٹر ایجوکیشن ، منیجنگ ڈائر یکٹر پاور ڈسٹریبیوشن کارپوریشن ،مشن ڈائریکٹر جل جیون مشن ، جوئنٹ ڈائریکٹر انفارمیشن شامل ہیں ۔عمر عبداللہ سرکار بننے کے بعد یہ بڑے پیمانے پر آفیسروں کا پہلا پھیر بدل ہے جسے منتخب سرکار کی جانب سے انتظامیہ پر اپنی گرفت قایم کر نے کی جانب اہم قدم قرار دیا جارہا ہے۔
ہر نئی حکومت ہی کی طرح عمر عبداللہ نے پرانی انتظامیہ کی جگہ اپنی پسند کے آفیسروں کو کلیدی عہدوں پر تعینات کیا ہے ۔ان تبدیلیوں کو عمل میں لاتے ہو ئے کون سا معیار مدنظر رکھا گیا کہنا مشکل ہے۔
حکومتوں کا وطیرہ یہ رہا ہے کہ وہ انتظامیہ کو تشکیل دیتے وقت وفادار اور جی حضوری مزاج کے آفیسروں کو کلیدی عہدوں پر بٹھا تے ہیں ۔پارٹی اورسیاسی وابستگی یا جھکاؤ کو بھی دیکھا جا تا ہے۔جس سے ایک ہی رنگ وخیال کی حامل انتظامیہ وجود میں آتی ہے۔ایسی انتظامیہ حکمران جماعت کی کا سہ لیس ہوتی ہے اور اس کے پارٹی کارکنوں کےلیے وقف رہتی ہے ۔حکمران پارٹی کی وابستگی سے باہر جو اور جتنے بھی لوگ ہوں ان کو نظر انداذ کیا جا تا ہے اور ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا جا تا ہے۔اس کے برعکس فعال اور صحت مند انتظامیہ کو منتخب کر نے کے لیے تبدیلی کا معیار آفیسروں کی قابلیت ،دیانت اور کام کے تئیں لگن ہوا کرتی ہے۔ حسن ظن سے کام لیتے ہو یے امید ہے کہ آج کی ٹرانسفر فہرست بناتے وقت اچھے اوصاف پر مبنی معیار کو ہی ملحوظ نظر رکھا گیا
ہو گا۔
جب مکمل طور پر ایل جی حکمرانی کا دور تھا اور سیاسی بندوبست نابود تھا تو سیاسی جماعتیں بشمول این سی کا بیانیہ یہ تھا کہ عوام کی جگہ طاقت کا سرچشمہ بیورو کریسی بن گئی ہے ۔ان کا الزام تھا کہ بیورو کر یسی اقتدار کے مزے لے رہی ہے اور عوام کی نمائندہ سرکار بننے کے حق میں نہیں ہیں ۔بعض سیاستدان جیسے پیپلز کا نفرنس کے چیرمین سجاد غنی لون کہا کر تے تھے کہ عوامی سرکا ر میں لاکھ خامیاں ہوں پھر بھی وہ افسر شاہی سے بہتر اور قابل قبول ہے۔آخر کار الیکشن ہوا اور عمر عبداللہ کی سربراہی میں منتخب سرکار نے اقتدار سنبھالا لیکن دوہری حکمرانی والے نظام میں بیوروکریسی بھی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ۔آئی اے ایس کیڈر کے تحت آنے والے آفیسر ایل جی کے ماتحت ہیں جبکہ کے اے ایس کیڈر کے تحت آنیوالے آفیسر چیف منسٹر کے کنٹرول میں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جموں کشمیر انتظامیہ پہلی اور دوسری صف پر مشتمل ہے جن پر دو مختلف دفاتر کا کنٹرول ہے۔ ایل جی حکمرانی کا مثبت پہلو یہ تھا کہ انتظامیہ پر فرد واحد کا کنٹرول تھا اور پہلی اور دوسری صف کی تقسیم نہ تھی ۔ایک متحدہ انتظامیہ کام کررہی تھی اور کام کاج ہموار طریقے سے چل رہا تھا ۔لیکن عوامی حکومت کے قیام کے بعد انتظامیہ کی پہلی اور دوسری صف کی تقسیم ایک گھمبیر مسلہ ہے ۔اس کا سادہ حل یہ ہے کہ ریاستی درجہ بحال ہو نے تک انتظامی تقسیم کے باوجود تال میل اور یک جٹ ہو کر کام کر نے کا اصول اپنا یا جا ئے تاکہ عوام کے مسائل الجھنے کے بجا ئے سلجھ سکیں ۔