Blogs & Articles

انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

جی ایم بٹ

پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا پر مختلف فرقوں کے ملائوں کے درمیان انور شاہ کشمیری کی حیات اور نظریات کے حوالےسے سخت جنگ جاری رہی۔ مسلکی تصادم آرائی اب کوئی نئی بات نہیں ۔جمعہ خطیبوں اور مبلغوں کے لئے یہ اب واحد مشغلہ ہے جس کو لے کر یہ اپنی اپنی مسجد میں اپنا اپنا حلقہ اثر بنائے ہوئے ہیں ۔قرآن کی تعلیمات سے یہ واعظ بے خبر ہیں ۔قرآن ان کے سیلبس سے باہر ہیں ۔ان کے جو اکابر ہیں جن کے ساتھ ان کی بیعت بھی وہ بھی قرآن کی ان تعلیمات سے بے خبر ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اصل میں کند ذہن ہونے کی وجہ سے جدید طرز کی تعلیم حاصل کرنے کے اہل ثابت نہیں ہوئے۔چوتھی پانچویں کے بعد جب یہ ان کے والدین کا ان پر کوئی زور نہ چلا اور اس زمانے کے اساتذہ کی روزانہ پٹائی سے خوف زدہ ہوکر انہوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ۔تو ان کا وبال اسلام اور مسلمانوں کے سر آگیا ۔رائج تعلیم کے اہل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مدرسوں میں داخل کرایا گیا اور یہ نقلی مولوی بن کر قوم پر سوار ہوگئے ۔باخبر ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ مسجدوں کے اندر چیخنے چلانے والے ان مولویوں میں اکثریت ان کی ہے جو مدرسوں میں پانچ پانچ دس دس سال گزارنے کے بعد بھی وہاں سے تعلیمی سند حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ان کے گھر بار سے اتنے سال دور رہنے کے بعد لوگ اندازہ لگا بیٹھے کہ یہ مولوی بن کر آئے ہیں اور انہیں مسجد کے محراب پر بٹھا دیا ۔ایک بار محراب و منبر پر براجمان ہونے کے بعد مائی کا کوئی لعل ایسا نہیں جو انہیں وہاں سے ہٹائے۔ اس قبضے کو مضبوط بنانے کے لئے کیا کچھ کرنا ہے اس سے یہ پوری طرح سے واقف ہیں ۔ان کے اساتذہ انہیں قرآن و حدیث تو پڑھا نہ سکے کہ وہ اس سے خود واقف نہیں ۔البتہ مسلکی منافرت کی تعلیم پوری طرح سے دی ہے۔ یہاں تک کہ علامہ انور شاہ کشمیری پر کیچڑ اچھالنے کے لئے کیا کچھ کرنا ہے اس سے بھی یہ اچھی طرح سے واقف ہیں ۔تہذیب یافتہ حلقے کوشش کررہے ہیں کہ شاہ صاحب کے آبائی گھر کو قومی ورثہ قرار دے کر اس کی حفاظت کی جائے ۔اس کے بجائے نام نہاد مذہبی علماء اس نام کو مٹانے اور اسے اختلافی شخصیت بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔اس حوالےسے تازہ ترین بیان پروفیسر سوز کا سامنے آیا ہے ۔سوز صاحب کا مطالبہ ہے کہ مرحوم انور شاہ کی وراثت کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کئے جائیں ۔سابق مرکزی وزیر اور کشمیر ثقافت سے پوری طرح سے واقفیت رکھنے والے پروفیسر سوز نے زور دیا ہے کہ لولاب میں موجود ان کے آبائی گھر کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے ۔سوز صاحب نے اس حوالےسے مبینہ طور وزیر اعلی عمر عبداللہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہیں یاد دلایا گیا کہ ورنو لولاب میں موجود علامہ انور شاہ کشمیری کے آبائی گھر کو 2017 میں ہیریٹج سائٹ قرار دئے جانے کے باوجود اس حوالےسے آج تک انتظامیہ کی طرف سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں ۔آس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر سوز نے حکام کی بے توجہی پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ مذکورہ احاطے کو محفوظ بنانے کے اقدامات کئے جائیں ۔
علامہ انور شاہ کشمیری ان گنی چنی شخصیات میں شامل ہیں جن کی وجہ سے کشمیر کو عالمی سطح پر شہرت ملی ہے ۔ان کے علم اور تقوی کی وجہ سے کشمیر کی بڑی عزت کی جاتی ہے ۔ان کے علم، فہم و فراست اور دیگر بہت سی منفرد صلاحیتوں کی وجہ سے علمی خاص طور سے دینی حلقوں میں نہ صرف ان کی ذاتی تعظیم کی جاتی ہے بلکہ پورے کشمیر کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔یہ بدقسمتی خود شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ جڑی رہی کہ ان کی زندگی کا بڑا حصہ مسلکی باریکیاں اور بے ہودگیاں سمجھانے میں صرف ہوگیا ۔کہا جاتا ہے کہ زندگی کے آخری حصے میں انہیں اس پر افسوس تھا تاہم اس دوران جو نقصان ہونا تھا ہوکر رہ گیا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب بر صغیر میں ختم نبوت کے حوالےسے ایک بڑا سانحہ پیش آیا ۔انور شاہ نے ختم نبوت کے تحفظ کو اپنی زندگی کا مشن بنایا یہاں تک کہ اسی مشن کو آگے لے جاتے ہوئے اس دنیا سے چل بسے ۔اس طرح سے ان کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ لوگ ان کی اس موت پر رشک کرتے ہیں ۔یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ علامہ کے دارلعوام دیوبندکی اس وقتکی انتظامیہ کے ساتھ شدید اختلافات ہوئے جس کے بعد انہیں ایک طویل عرصے تک وہاں سے بے داخل ہونا پڑا ۔ اس کے باوجود وہاں کے شاگرد اور سیاست سے بے پرواہ اساتذہ علامہ کی بے حد عزت کرتے تھے اور ان کا نام وہاں کے علمی حلقوں میں برابر گشت کرتا رہتا تھا۔ یہ ان لوگوں کی بدقسمتی ہے جو علامہ کے مرتبے، ان کی علمی کاوشوں اور دینی صلاحیتوں سے بے خبر ہیں ۔ان کے بھونکنے سے کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کی انجمن نے اس بات پر احتجاج کیا کہ بعض گستاخ علامہ کی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال کررہے ہیں ۔ان کا ایسے معاملات میں رول ہمیشہ ہی خودغرضانہ اور نازیبا رہا ہے ۔ ایسے مدارس مسلکی اختلاف کو اصل دین سمجھتے ہیں ۔ان کا سارا کاروبار اس کی وجہ سے چلتا ہے ۔ اصل میں یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس ذلالت کو پاکستان میں پھیلا دیا ۔بعد میں کشمیر برآمد کیا ۔مدرسوں کے نمودار ہونے سے پہلے کشمیر میں اس طرح کے کوئی اختلافات نہیں پائے جاتے تھے ۔اب اس سیلاب کا رخ جب خود ان کی طرف مڑنے لگا تو چیخنے چلانے لگے ۔ان کی اس چیخ و پکار کی کوئی وجہ ہے اور نہ حیثیت ۔لہذا یہ لوگ اس معاملے سے دور رہیں اور ایسے مسائل کو ہوا نہ دیں یہ ان کی بڑی مہربانی ہوگی ۔

Visit: Valley Vision News

Show More

Online Editor "Valley Vision"

Valley Vision News is your trusted source for authentic and unbiased news from the heart of Kashmir and beyond. We cover breaking news, culture, politics, and stories that matter, connecting local voices to global perspectives. Stay informed with us! "Empower your vision with truth, for every story has the power to change the world."

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button