این سی سرکار کا ایک مہینہ اورچار وعدوں کی تکمیل کا دعویٰ
جہاں زیب بٹ
این سی حکومت نے ایک ماہ کی مدت پار کردی اور خود ہی کارکردگی رپورٹ جاری کردی جس میں این سی حکومت کو مضبوط ارادوں کی حامل قرار دیا گیا جس نے پہلے مہینے میں ہی عوام سے چار بڑے وعدے پورا کیے۔ایم ایل اے جڈی بل تنویر صادق نے انکشاف کیا ہے کہ امن و قانون کی ذمہ داری عبداللہ حکومت کو منتقل کر نے کے سوال پر مرکز سے مذاکرات جاری ہیں اور اگلے چند مہینوں میں جموں کشمیر کا ریاستی درجہ واپس لا یا جا یے گا جس کے ساتھ این سی کے انتخابی منشور میں شامل تمام بارہ ضمانتوں اور چھبیس وعدوں کو پورا کر نے کے ضمن میں اقدامات اٹھا یے جائیں گے ۔
پانچ سال میں انتخابی منشور کے سارے وعدے پورا کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ تنویر صادق ہی کی طرح این سی لیڈر اپنی ایک مہینے کی کارکردگی پر نازاں ہیں جس میں چار بڑے وعدوں کو پورا کر نے کا سہرا لیا جا رہا ہے جن میں یوٹی کا بینہ کی طرف سے سٹیٹ ہڈ کی سفارش کرنا،اسمبلی کی طرف سے خصوصی درجے کی مانگ پر مبنی قرار داد پاس کر نا ، مسابقتی امتحانات کے لیے عمر کی حد پینتیس سال مقرر کر نا اور تعلیمی سیشن کو مارچ سے نومبر واپس لا نا شامل ہے۔ این سی لیڈر عوام کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیے گیے انتخابی وعدے ایک ایک کر کے پورے کیے جاییں گے اور اس بات پر یقین کر نا چاہیے کیوں کہ آغاز کے طور پر صحیح سمت پکڑی گیی ہے جس کا ثبوت چار بڑے وعدوں کی تکمیل سے ملتا ہے۔
این سی حکومت کی ایک ماہی کارکردگی رپورٹ سے بھلا کس کو انکار ہے۔لیکن سوال عوام کو بڑی راحت اور ریلیف ملنے کا ہے جس کے لیے عوام ایک عرصے سے ترس رہے ہیں ۔ اس حکومت کو ایک مکمل ترقیاتی ماڈل پیش کر نا ہے جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا حامل ہو ۔روزگار کی عدم دستیابی نے نوجوان پود کو شدید ذہنی تناؤ میں مبتلا کیا ہے اورلوگ غربت اور مہنگاءی کے پہاڑ تلے آچکے ہیں۔قدرتی وسایل پر مقامی تصرف اور انکو لیکر پیداواری سکیمیں تیار کرنا عبداللہ حکومت کے لیے بڑا چلینج ہے۔آبی وسایل کو برویے کار لاکر پن بجلی پروجیکٹ تعمیر کر نے کے ضمن میں گزشتہ سرکاروں نے جو مجرمانہ غفلت برتی اس کا دانشمندانہ ازالہ ترجیحات کی فہرست میں شامل ہو نا چاہیے۔
ٹھیک ہے باعزت امن جموں کشمیر کے عوام کی دیرینہ خواہش ہے ۔مگراس کی تعریف مختلف ہے اور اس حوالے سے تاریخ کے اوراق میں مختلف کردار اٹھے اور عوام پر چھا گیے لیکن کسی نے بھی اطمینان بخش کامیابی درج نہیں کی۔ این سی شوق سے اپنے نظریے پر مبنی سیاسی مقدمہ لڑے لیکن دھیان رہے یہ ایک طویل جنگ ہے۔معمولی سٹیٹ ہڈ لیجیے پرایم منسٹر اور ہوم منسٹر نے اس کی بحالی کا وعدہ کیا ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ رکاوٹیں حایل ہیں جس بناء پر عبداللہ حکومت اس پر دلی سے مذاکرات کررہی ہےاور یہ معاملہ طول پکڑ رہا ہے۔خصوصی درجہ تو اس سے ہزار گنا پیچیدہ مسئلہ ہے اس کی تعریف سے لیکر اس کو منوانے تک کتنے مراحل درپیش آسکتے ہیں سمجھنا دشوار نہیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی مقدمہ لڑنے کی چاہ سنجیدگی پر مبنی ہو تو یہ عقل ،حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر سازگار ملکی سیاست کی متقاضی ہے۔یہ کام دنوں مہینوں بلکہ پانچ سال میں بھی انجام پانا ممکن نہیں ۔چنانچہ سیاسی مقدمہ لڑنے کی بات تو ٹھیک ہے لیکن روزگا رکے وسایل پیدا کرنا اور معاشی خود کفالت کا معرکہ سر کرنا قومی خودداری اور خود اختیاری کا جزو لاینفک ہے۔آج تک اس قوم کو جذبات پر نچایا اور بہلایا گیا ۔سیاسی مقدمہ بازی کے نام پر دایرے کے سفر کروا یے گیے ۔ اب حقیقتوں کا ادراک کر نے کی ضرورت ہے۔این سی کو سوچنا چا ہیے کہ اس کا سیاسی اقتدار بہت سے کھنڈرات پر قایم ہو گیا ہے۔اس کو عوام نے بھاری منڈیٹ دیا ہے اسکی قدر ہو نی جا ہیے جس کی صورت یہ ہے کہ وہ عوام کی راحت رسانی کا محاذ پکڑ لے اور قومی وقار اور سیاسی لڑا یی کو جڑواں بنا بنا کر یہ نہ سوچے کہ وہ فرض نبھار ہی ہے۔۔وہ چاند تارے توڑ کر لانے کی باتیں کرے توان پر بھلا کون یقین کرسکتا ہے جب اس کی بے اختیاری کا یہ عالم ہو کہ دفتری کاررواییاں اختیارات کی تقسیم کا فیصلہ نہ ہو نے کی وجہ سے ماند پڑ گیی ہیں اور عوام جمہوری حکومت کے وجود کی خوشبو محسوس نہیں کر پارہے ہیں۔
Visit: Valley Vision News