بچوں کو منشیات سے دور رکھنا والدین کی ذمہ داری
از قلم ۔۔ارباز منظور
سماج میں کئی بُرائیوں نے اس طرح سے قدم جمائے ہیں کہ کوئی بھی شخص ان بُرائیوں سے خود کو الگ کرنے میں بڑی دشواریاں محسوس کرتا ہے اگر سماج میں موجود ہر ایک شخص نے مل جھُل کر اس کیخلاف کام نہیں کیا تو شاید مستقبل میں ہمارے سماج کا ہر ایک فرد اس کا شکار ہوجائے گا جو کسی اندھیرے سے کم نہیں ہوگا۔اگر دیکھا جائے تو کبھی ہمارے یہاں کسی بھی بُرائی کیلئے کو ئی جگہ نہیں تھی اور اُس وقت اس طرح سے لوگ تعلیم سے دور تھے اور کسی بھی شخص کو اس بات کا کوئی اندازہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ اُنہیں دو وقت کی روٹی کیسے نصیب ہوگی تاہم اس طرح کی مشکلات کے باوجود بھی لوگوں کو اچھے اور بُرے میں فرق کا اندازہ ہوتا تھا اور ہر کوئی بہتر سے بہتر کام کرنے کی ہی کوشش کرتا تھا اگر چہ لوگوں کو کسی بھی طور اپنے آپ کو بدلنے کیلئے بڑی محنت اور مشقت کرنی پڑی تاہم لوگوں نے اس بات کی کوئی پُرواہ کئے بغیر خود کو اس بات کیلئے تیار کیا کہ اگر اپنی حالت کو اچھے طریقے سے بدلناہے تو اُنہیں تعلیم سے خود کو آراستہ کرنا ہوگا اور یوں آہستہ آہستہ لوگوں نے اپنے بچوں کو اسکولوں کی طرف روانہ کیا اور خود کو اس بات کیلئے تیار کیا کہ اگر اُنہیں کسی طرح کی بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل دینے کیلئے اُن مشکلات کا بھی سامنا خوشی سے کریں گے اور اس بات کو ثابت کریں گے کہ وہ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اس طرح کا عزم لیکر لوگوں نے نہ جانے کس کس طرح کی مشکلات کا سامنا کیا لیکن اس طرح کی مشکلات کے باجود آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے سماج میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور ہر طرف ہمیں آجکل اسکول اور کالیج دیکھنے کو مل رہے ہیں جس کے ساتھ ساتھ بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے والدین اُن تمام سہولیات کو بہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی آج کے اس جدیددور میں تعلیم کیلئے ضرورت پڑتی ہے اگر چہ اس قدر والدین اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے کرتے ہیں تو ہمارے سماج میں ہر طرف لوگ خاص کر نوجوان منشیات جیسے سے بُرائی کی دلدل کے شکار کیوں ہورہے ہیں کیا ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ ہے کہ کسی بھی طور ہمیں بُرائیوں سے اپنے بچوں کو کس قدر دور رکھنا چائے اور اگر نہیں ہے تو شاید یہ ہمارے بچوں کے روشن مستقبل کو تباہ و برباد کردیگی ایسے میں اگر چہ سماج کے ہر ایک شخص کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چائے وہی سب سے زیادہ ذمہ داری تمام والدین پر عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر تربیت کیلئے وقت نکال دیں ظاہر سی بات ہے جب بھی سماج میں کوئی بُرائی جنم لیتی ہے سب سے زیادہ اُس کا اثر نوجوانوں پر ہی ہوتا ہے کیونکہ نوجوانوں کو کسی بھی بُرائی کی طرف مائل کردینا کوئی زیادہ مشکل بھی نہیں ہوتا ہے اکثر نوجوان اچھے اور بُرے سے ناوقف ہی ہوتے ہیں کیونکہ اُن کو اس طرح سے زندگی کا تجربہ بھی نہیں ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ بہت جلد کسی بھی بُرائی کا شکار ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بہتری کے بجائے بُرائی کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں دیکھا جائے تو آجکل ہر طرف تعلیمی ادارے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جسکی وجہ سے منشیات کا کاربار کرنے والے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس بُرے کاربارکو بہت ہی زیادہ اسکولوں اور کالیجوں کے نددیک ہی چلا سکتے ہیں اور اس طرح سے یہ بے ضمیر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنا کام چوری سے اسکولوں اور کالیجوں کے نذدیک ہی چلائیں اس وقت سرکار بھی منشیات سے نوجوانوں کو نجات دلانے کیلئے محترک دکھائی دیتی ہے اور یوں پولیس اور یا اور دوسرے ادارے اس منشیات سے سماج کو پاک رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جسکے لئے وہ ہردن ایسے لوگوں کیخلاف کاروائی بھی کرتے ہیں ظاہر سی بات ہے جب بھی لوگوں کو اس بارے میں جانکاری ملتی ہے تو بہت کم لوگ پولیس یا دوسرے سرکاری اداروں تک اس بات کو پہنچاتے ہیں جسکی وجہ سے اس طرح کی بُرائی کو جلد از جلد ختم کرنے میں ہم کامیاب نہیں ہوتے ہیں ایسے میں اگر دیکھا جائے تو جس کسی بھی شخص کو کسی بھی جگہ منشیات کے کاربار میں ملوث افراد کے بارے میں کوئی جانکاری مل جائے اُسے نذدیکی پولیس اسٹیشن تک ضرور پہنچائیں تاکہ ایسے افراد کیخلاف وقت پر ہی کاروئی ہوجائے اور اس طرح کی بُرائی کو مزید بڑنے سے روکا جائے تاہم اگر سب سے زیادہ ذمہ داری کی بات کریں تو وہ تمام والدین پر ہی عاید ہوجاتی ہے کیونکہ جب والدین بچوں کو زیادہ وقت نہیں دیتے ہیں تو وہ اچھی تربیت سے محروم ہوجاتے ہیں جسکی وجہ سے وہ بُرائی کی دلدل میں بھی بہت جلد پھنس جاتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی بہتر تربیت کیلئے وقت نکال دیں تاکہ وہ اچھے اور بُرے میں فرق کو سمجھ سکیں شاید تب ہی ہمیں اُمید رکھنی چائے کہ ہمارے بچے خاص کرنوجوان اس طرح کی بُری لت سے خود کو محفوظ رکھ پائیں گے جس کی طرف توجہ دینا بے حد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔