راج بھون بمقابلہ منتخب حکومت۔۔۔ایل جی اور سی ایم میں جھگڑے کی تردید – Chattan Daily Newspaper
از:جہاں زیب بٹ
پہلے وزارت داخلہ اور اس کے بعد این سی نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا کہ جموں کشمیر میں راج بھون اور چیف منسٹر کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو لے کر کو ئی تناؤ اور تنازعہ کھڑا ہو ا ہے۔ جھگڑے کی تردید اپنی جگہ لیکن سچائی یہ ھے کہ عمر عبداللہ کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی یہ سوال اٹھنے لگا کہ اقتدار کے دو مراکز کی موجودگی میں ایل جی اور سی ایم کے اختیارات کی تقسیم اور ہموار حکومت چلانے کے لیےروڑ میپ ہو نا ضروری ہے ۔اس غرض کے لیے ڈپٹی چیف منسٹر سریندر چو دھری کی سربراہی
میں ایک کابینہ سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس
کو پانڈیچری طرز پر کاروباری قوانین کا قابل عمل نمونہ بنا نے کا کام سونپا گیا۔تاہم اس دوران کچھ
ایسے واقعات رونما ہو ئے جن سے یہ تاثر ملا کہ عمر عبداللہ حکومت آزادانہ طور پر کو ئی فیصلہ لینے سے قاصر ہے اور کہیں نہ کہیں ایل جی اور سی ایم دفاتر کے درمیان تال میل اور تعاون کی کمی ہے۔
تناؤ کی پہلی وجہ ایڈوکیٹ جنرل کی تقرری بنی ۔ڈی سی رینا نے عمر عبداللہ حکومت بننے کے فوراً بعد سرکاری عہدے سے استعفیٰ دے دیا جسے چیف منسٹر عمر عبداللہ نے مسترد کر تے ہو ئے انھیں اپنی ذمہ داری بدستور نبھا نے کی ہدایت دی۔ تاہم اخباری رپورٹس کے مطابق رینا صاحب دوبارہ جوین نہ کر سکے کیونکہ راج بھون سے منظوری نہیں آئی۔دوسرا معاملہ تین آئی اے ایس آفیسروں کا ہے جنھیں اس وقت ایل جی حکمنامے کے تحت تبدیل کیا گیا جب چیف منسٹر عمر عبداللہ قریبی ساتھیوں سمیت سعودی عربیہ میں تھے ۔ان واقعات کے حوالے سے قومی میڈیا میں خبریں گشت کر نے لگیں کہ راج بھون اور سی ایم کے درمیان دراڑ پیدا ہو گئی ہے۔
اس دوران این سی کے بانی شیخ محمد عبداللہ کا جنم دن آیا اور علی محمد ساگر سمیت کئی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اس دن کی چھٹی کو بحا ل کیا
جا ئے۔اس کی سفارش ایل جی کے پاس تو گئی لیکن بر وقت منظوری نہ ملی تو اس چیز کو بھی ایل جی اور سی ایم کے درمیان ناچاقی سے جوڑا گیا ۔تاہم چیف منسٹر کے مشیر ناصر اسلم وانی نے فوری طور پر شکوک وشبہات کو دور کر تے ہو ئے کہا کہ سفارش ایل جی کے پاس ذرا دیر سے گئی۔لہذا آئندہ سال سے چھٹی بحال ہو جا ئے گی ۔ ادھر ناصر اسلم صاحب کی وضاحت میں سی ایم کے مقابلے میں ایل جی کے زیادہ اختیارات کا برملا اعتراف موجود تھا لیکن ادھر تنازعہ اس وقت بڑھتا ہوا نظر آیا جب ڈپٹی سی ایم سریندر چودھری نے سوال کیا کہ ” کون کہتا ہے کہ منتخب حکومت کے پاس اتنے اختیارات نہیں کہ وہ تمام انتخابی وعدوں کو پورا کر سکے۔”یہ ایک زبردست دعویٰ تھا اور اس کے ساتھ ساتھ جب ایڈوکیٹ جنرل کی تقرری اور آئی اے ایس آفیسران کے تبادلے کے سوال پر ایل جی اور سی ایم کے مابین مبینہ خلیج کا انکشاف ہو ا تو وزارت داخلہ نے واشگاف طور پر کہہ دیا کہ جموں کشمیر کے تنظیم نو قانون کی رو سے ایل جی کا دائرہ اختیار بالکل واضح ہے ۔وہی ایڈوکیٹ جنرل کی تقرری کر سکتے ہیں اور وہی آئی اے ایس اور آئی پی ایس آفیسروں کے تبادلہ حکمنامے جاری کر نے کے مجاز ہیں۔سی ایم کوحاصل اختیارات کے حوالے سے کسی الجھن کو نکارتے ہو ئے داخلہ وزارت نے کہا کہ پولیس محکمہ ایل جی کے پاس ہے۔اس کے بغیر تمام اختیارات سی ایم کے پاس ہیں .مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے مزید کہا گیاکہ وہ یو ٹی گو رننس کا نظام چلا نے کے لیے کاروباری قواعد کی جانچ کررہی ہے اور جلد ہی اسے منظر عام پر لا یا جا ئے گا تاکہ جموں کشمیر میں دائرہ اختیار کی اوور لیپنگ کی تمام قیاس آرائیوں کا باب بند ہو سکے۔
مرکزی وزارت داخلہ کے بیان کی تائید کرتے ہو ئے این سی کے ترجمان تنویر صادق نے عمر عبداللہ حکومت اور راج بھون می کسی جھگڑے سے انکار کرتے ہو ئے دعویٰ کیا کہ ابھی تک کوئی بڑا مسلہ پیدا نہیں ہو ا اور آئیندہ بھی نہیں ہو گا تاہم انھوں نے پارٹی کا یہ موقف دہرایا کہ دوہری حکومت کا نظام موجود نہیں رہنا جاہیے۔ادھر چیف منسٹر عمر عبداللہ نے پارٹی ممبران اسمبلی کو سٹیٹ ہڈ کی بحالی تک صبر کی جو تلقین کی اس سے یہ اخذ ہو تا ہے کہ این سی اقتدار کے دو مراکز کی موجودگی سے پریشان تو ہے لیکن فی الحال کے طور پر دستیاب محدود اختیارات پر گزارہ کر نے کے بغیر اس کو کو ئی دوسراآپشن نظر نہیں اتا۔ عام تاثر یہ ہے کہ وہ محاذآرائی کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اس سے جہاں مرکز کے ساتھ خلیج بڑھ جا ئے گی وہیں حکمرانی اور عوامی خدمت کا دستیاب موقعہ بھی ضایع ہو گا۔لہذا جب تک یو ٹی ہے ایل جی اور سی ایم کو چا ہیے کہ وہ دو حکمرانی ماڈل کو چلانے کے لیے
بقا ئے باہم کے اصول کے مطابق ٹکراؤ کے بجا ئے اعراض کی پالیسی اپنائیں اور ایک دوسرے کے ممد و معاون بننے کی تاریخ رقم کریں ۔
Visit: Valley Vision News