Blogs & Articles

ریختہ کی کہانی :کس نے دیا تھا نام ۔ کون تھا ریختہ کا پہلا رکن – Chattan Daily Newspaper

منصور الدین فریدی

ریختہ کے لیے بہت سے معزز لوگوں نے ہماری مدد اور رہنمائی کی ۔جن میں عمیر منظر،وہ ہیں جو سب سے پہلے اس سفر میں میرے ساتھ جڑے ۔۔۔
سال 2012 میں ریختہ کی ‘نقاب کشائی’کے موقع پر راجدھانی میں ایک خوبصورت محفل میں ریختہ فاونڈیشن کے روح رواں سنجیو صراف کے ان الفاظ کے ساتھ تالیوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی ۔۔۔۔ سنجیو صراف کے شکریہ کے ان چند الفاظ کے پیچھے ایک بڑی کہانی ہے ۔ ریختہ کے وجود بخشنے کی محنت کی کہانی ،خواہشات ،عزائم اور خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے کی کہانی ۔ جس میں ڈاکٹر عمیر منظر کا اہم ترین کردار بھی سامنے آیا،جو ایک وقت سنجیو صراف کے اردو کے استاد بنے اور پھر ان کی ریختہ کے پہلے ’رکن’ جنہوں نے سنجیو صراف کی ویب سائٹ کے لیے ’ریختہ ‘ کا نام تجویز کیا تھا جو اب اردو کی ایک نئی دنیا کے طور پر جانی جاتی ہے ۔
ہر سال ریختہ کا ایک فیسٹول یا تہوار ہوتا ہے جسے ہم جشن ریختہ کے نام سے جانتے ہیں لیکن اگر ہم ریختہ کے آغاز سے ابتک کے سفر پر نظر ڈالیں تو سنجیو صراف کے خواب کو حقیقت بنانے میں ان کی مدد اور رہنمائی کرنے والوں کے کچھ چہرے اور نام ہیں اور ان کی کچھ کہانیاں ہیں ۔جنہیں ہم آپ کے سامنے پیش کریں گے ۔ ان یں سے ایک کردار ڈاکٹر عمیر منظر کا ہے ۔۔۔جنہیں ہم سنجیو صراف کے اردو استاد کے طور پر متعارف کرسکتے ہیں جبکہ جو نام یعنی ریختہ آج ہر کسی کی زبان پر ہے وہ وہ ان کی کھوج،تلاش یا دین ہے ۔ وہ اب شعبہ اردو ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی،لکھنو کیمپس میں اسسٹینٹ پروفیسر ہیں ۔
آواز دی وائس نے اس کھوج کے بعد جب ایک سادہ مزاج اور کم گو شخصیت کے حامل ڈاکٹر عمیر منظر سے رابطہ کیا تو وہ بھی حیران ہوگئے ۔سوال کیا کہ ارے صاحب اس کا مقصد کیا ہے ؟ انہیں بتایا کہ ریختہ اب ایک نام نہیں بلکہ دنیا ہے اس لیے اس کے وجود میں آنے کا مرحلہ اب بڑی دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے ۔ کچھ دیر کی بات چیت کے بعد ڈاکٹر عمیر منظر نے ریختہ کے نام کرن سے بسمہ اللہ تک کی کہانی سنانے پر رضا مندی ظاہر کی ۔ وہ لکھنو میں تھے اور میں دہلی میں اس لیے بات چیت کا ٹیلی فون پر ہونا طے پائی ۔ رات گئے سکون کے ساتھ ڈاکٹر عمیر منظر صاحب کو کو کال کی تو شروع ہوا ریختہ کے وجود میں آنے کی کہانی کا سلسلہ ۔ جس میں متعدد کردار سامنے آئے ،ان کی خدمات اور تجاویز پر سے پردہ اٹھا ،جس نے سنجیو صراف کے شوق کو ہمت اور طاقت کے ساتھ حوصلہ اور جذبہ عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سفر کا آغاز صر ف شاعری کی ویب سائٹ سے ہوا تھا لیکن اب ریختہ زمین سے آسمان تک بسی اردو کی سب سے بڑی دنیا ہے
بہرحال جب میں نے ڈاکٹر عمیرمنظر صاحب سے دریافت کیا کہ ۔۔۔ اب یاداشت کے صفحات کو پلٹنے کا آغاز کرتے ہوئے اس تحریک کے پہلے قدم کے بارے میں بتائیں ۔
تو ڈاکٹر عمیر منظر نے کہا کہ ۔۔۔غالبا یہ 2010 کی بات تھی گرمیاں ابھی شروع نہیں ہوئی تھی اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وائس چانسلر جناب نجیب جنگ تھے اور شعبہ اردو کے صدر پروفیسر خالد محمود صاحب تھے ایک دن ان کا ایک رقعہ ملا کہ یہ وائس چانسلر صاحب نے دیا ہے اور یہ جن کا نام اس پر لکھا ہے انہیں اردو پڑھانی ہے ۔ نام تھا سنجیو سراف۔ میں نے اس نمبر پر فون کیا انہوں نے گفتگو کی اور وقت طے ہوا اور پہلی بار جب میں ان کی کوٹھی پر ملنے گیا تو اور باتوں کے علاوہ مجھے یہ اندازہ اس وقت تک نہیں تھا یہ کون صاحب ہیں لیکن بہرحال ان کی شائستگی ان کی سنجیدگی متانت اور ایک خاص طرح کا ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنے کا انداز وہ مجھے بہت پسند آیا اور ہر چیز کے سلسلے میں پیشگی اطلاع دینا مجھے بہت ہی پسند آیا، ایک دو ملاقاتوں کے بعد انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ انہیں اردو سے بڑی محبت ہے اردو پڑھنا چاہتے ہیں اور خاص طور سے شاعری سمجھنا چاہتے ہیں چند ملاقاتوں میں ہی مجھے اندازہ یہ بھی ہو گیا کہ بہراصل اردو زبان جاننے کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی اردو کی ایک ویب سائٹ بنانا بھی ہے،بلکہ اس پر وہ زیادہ توجہ دینا چاہیں گے،ان کے ذہن میں اردو کی ویب سائٹ شروع کرنے کا ایک خواب تھا جو کئی برسوں سے پل رہا تھا۔
آپ کو بتا دیں کہ یہ وہ دورتھا جب سنجیو صراف اردو کے عشق میں مبتلا ہوکر زبان سیکھ رہے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ اردو کے شوقین لوگ بے یارو مددگار نہ رہ جائیں ۔ان کو اردو تک پہنچانے کے لیے ایک پل بنایا جائے جس سے ان کی اردو سے قربت میں اضافہ ہو ،ساتھ ہی ان کی تڑپ دور ہو۔ ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ایسے ہیں جو شاعری کے سبب زبان سیکھنے کے خواہاں رہتے ہیں لیکن انہیں اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں مل پاتی ہے ۔اس سلسلے میں سنجیو صراف نے اس لیے سوچا کیونکہ وہ بھی اس مشکل کا سامنا کرچکے تھے۔ ان کے سامنے وسائل تھے اس لیے اردو سیکھنے کے لیے ڈاکٹر عمیر منظر مل گئے تھے لیکن ہر کسی کے لیے یہ ممکن نہیں ۔
اس سلسلے میں جب میں نے ڈاکٹر عمیر منظر صاحب سے دریافت کیا کہ سنجیو صراف نے سب سے پہلے کب اپنے دل کی بات یا ارادے کا اظہار کیا
تو انہوں نے کہا کہ سنجیو صراف نے کئی مرتبہ کچھ معلومات حاصل کی تھیں ،جن کے سبب مجھے اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ یہ صاحب اردو سیکھنے سے آگے بھی کچھ کرنے کے خواہاں ہیں ۔ ایک روز انہوں نے باضابطہ اپنی اس بات کا ذکر کیا،پھر بات ہوئی کہ تفصیل سے اس پر بات کی جائے گی ۔کچھ دنوں کے بعد پھر انہوں نے کہا کہ بھئی مجھ جیسے بہت سارے لوگ ہیں جنہیں اردو زبان سے محبت ہے اور ان کے بہت سارے سوالات ہیں، ان کے اشکالات ہیں اور ہر ادمی کو ضروری نہیں کہ کوئی پڑھانے والا بتانے والا سکھانے والا مل جائے اس لیے اس ایک ویب سائٹ کے ذریعے ان تمام لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل کی جا سکتی ہے ۔پہلی بار میں نے سنجیدگی کے ساتھ اس موضوع پر غور کرنا شروع کیا ۔اسی دوران ان کی افس نوئیڈا جانے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا۔ایک بار وہ مجھے نوئیڈا لے گئے اور کہا کہ ہم آفس کے ایک حصے میں اردو کا کام شروع کر سکتے ہیں،ڈاکٹر عمیر منظر کو بھی اس وقت تک اس بات کا احسا س نہیں تھا کہ وہ کسی دنیا کو بسانے کی پہل کا حصہ بن چکے ہیں،انہیں بھی ایسا لگ رہا تھا کہ گویا اردو کے ایک شیدائی سے واسطہ پڑ ا ہے ،جو دیگر مداحوں سے کچھ زیادہ گرم جوشی کے مالک ہیں ۔
جب میں نے ڈاکٹر عمیر منظر صاحب سے دریافت کیا کہ ویب سائٹ کی پہل کب اور کیسے ہوئی ؟
ڈاکٹر عمیر منظر کہتے ہیں کہ ایک مرحلہ وہ آیا کہ سنجیو صراف صاحب نے سوال کیا کہ ویب سائٹ تیار کرتے ہیں لیکن اس کا نام کیاہوگا؟کیونکہ سب سے پہلا مرحلہ نام کا رجسٹریشن ہی ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں چند ایک نام ہو سکتے تھے ۔جن میں ایک اردو غزل اور دوسرا اردو شاعری تھا جبکہ ایسے کچھ اور بھی نام سامنے آئے تھے۔مگر یہ سب پہلے سے ہی رجسٹرڈ تھے،ان ناموں کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی تو ان کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں۔اس کے بعد کئی بار ہم سر جوڑ کر بیٹھے ،میں نے سنجیو صراف صاحب کو ’ ریختہ‘ کا نام تجویز کیا ۔ انہوں نے اس کے معنی پوچھے میں نے بتائے ،انہیں نام پسند آیا اور پھر ریختہ ڈاٹ او آر جی کے نام سے ویب سائٹ کا رجسٹریشن ہو گیا ۔یاد آتا ہے کہ اس لفظ کے آہنگ کو انہوں نے بہت پسند کیا تھا، اس پوری کاروائی میں دھرمندر ساہا بھی ہمارے ساتھ تھے۔وہ بڑی دلچسپی اور توجہ سے ان کاموں کو دیکھتے بھی اور نوٹ بھی کرتے تھے۔ ان کی تندہی سےکا نتیجہ ہی ہے کہ بہت سے ہدف وقت سے پہلے حاصل کر لیے گئے۔یہ تو ریختہ فاونڈیشن کی کاغذی تیاریوں کا سفر تھا،اردو کی دلچسپی نے سنجیو صراف کو ویب سائٹ کی تیاری تک پہنچا دیا تھا ۔ ڈاکٹر عمیر منظر یوں تو سنجیو صراف کو اردو سیکھانے گئے تھے لیکن اس کے ساتھ وہ ایک اور مشن میں جٹ گئے ،جو کہ اردو کے مداحوں کے لیے اب ایک خوابی دنیا بن چکی ہے ۔ جب میں نے ڈاکٹر عمیر منظر صاحب سے نام کرن کے بعد کی تیاریوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ۔۔۔ جی ہاں ! نام طے پایا تو پھر سفر آگے بڑھا ،2011 کی گرمیوں میں میں نے باضابطہ طور سے ویب سائٹ کا کام شروع کیا۔پہلے مرحلے پر یہ طے پایا کہ کلاسیکی شعرا کے کلام کا انتخاب کیا جائے اور یہ سلسلہ ابتدا سے مرزا غالب تک طے کیا گیا۔ شاعروں کا انتخاب شروع جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ دیگر لائبریریوں اوراپنی ذاتی لائبریری سے شعراء کا انتخاب کیا گیا، انہیں کمپوز کرایا گیا ۔لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ایک اضافہ ہوا ۔ جس میں نوئیڈا آفس میں ایک کمپوزر کو رکھ کر کام شروع کیا گیا۔ دھیرے دھیرے یہ کام شروع ہوا اور پھر رفتار پکڑ گیا

جب میں نے ڈاکٹر عمیرمنظر صاحب سے دریافت کیا کہ اس سفر کے آغاز کے بعد وہ کون سے چہرے تھے جنہوں نے ریختہ فاونڈیشن کے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے سنجیو صراف کا ساتھ دیا یا اپنی قیمتی تجاویز پیش کی جنہیں ریختہ نے اپنایا یا قبول کیا

اس کے جواب میں ڈاکٹر عمیر منظر کہتے ہیں کہ میں نے ابتدا میں نے پروفیسر شہپر رسول ، پروفیسر احمد محفوظ صاحب اور پروفیسر عبدالرشید صاحب سے رابطہ کیا تھا ،انہیں اس پروجیکٹ کے بارے میں آگاہ کیا اور مشورے لیے اور ان پر عمل کیا ۔ اس کے بعد میں نے دونوں حضرات سے سنجیو صراف سے ملاقات کرائی ۔یقین جانیں پہلی ملاقات کئی گھنٹوں تک جاری رہی،ہر پہلو پر بات چیت ہوئی ۔ جس میں سنجوصراف صاحب نے اپنے ارادے اور عزائم کا اظہار کیا ۔ ان لوگوں نے بھی مشورے دئیے، سب سے ہم بات یہ تھی کہ جو بھی مشورہ دیا جاتا یا جو بات کہی جاتی، اس کو سنجیو صراف خود نوٹ کرتے یا اس کو ذہن میں رکھ کے اور اس کے ممکنہ عمل کی فوری کوشش کرتے تھے۔ مثال کے طور پر پروفیسر رشید صاحب نے مشورہ دیا کہ پرانی کتابوں کو محفوظ کرنے کے طریقہ یہ ہے کہ انہیں اسکین کر کے ویب سائٹ پر اپلوڈ کر لیا جائے ۔ان کا یہ مشورہ انہیں بہت پسند آیا۔

ڈاکٹر عمیر منظر اس بارے میں مزید کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد ہم آفس گئے تو سنجیو صراف نے کہا کہ وہ مشین آگئی ہے، اب آپ لوگ کتابیں لا ئیں ،اسکیننگ کا مرحلہ شروع ہوگا ۔ ہم جیسے ایک عجیب کیفیت میں چلے گئے اور پھر ایک بڑا ٹارگٹ بڑا چیلنج تھا کتاب لانے کا، جو اسکین ہوں۔ابتدا میں ہم لوگوں نے یہی کوش کی کہ منتخب اور اہم کتابیں ہی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں لیکن بعد میں یہ بھی ایک نئی دنیا بن گئی
ڈاکٹر عمیر منظر کہتے ہیں کہ ابتدا میں جب کسی سے ویب سائٹ کا ذکر کیا جاتا تو عام طور سے لوگ سن کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔لیکن ریختہ کے لیے ابتدائی دنوں میں جن لوگوں نے اس کام کو سراہا یا حوصلہ افزائی کی ان میں شمس الرحمن فاروقی صاحب ،پروفیسر شمیم حنفی صاحب اور پروفیسر والواسع صاحب جیسے لوگ شامل ہیں۔ غالبا سب سے پہلا کالم ریختہ کے بارے میں پروفیسروواسع ہی نے لکھا تھا۔اردو اکیڈمی کے جب و وائس چیئرمین تھے تو انہوں نے ریختہ کو فروغ اردو کا ایوارڈ بھی عطا کیا تھا یہ ابتدائی حوصلہ افزائیاں آگے بڑھنے میں بہت کرامت ثابت ہوئی اور لوگوں میں بہت جلدی اس کا اعتبار پا گیا ۔
آپ کو بتا دیں کہ ڈاکٹر عمیر منظر نے ریختہ کے ابتدائی دور میں ہی مولانا ابوالکلام آزاد اردو یونیورسٹی میں بطوراسیسٹینٹ شمولیت اختیار کر لی تھی ۔جس کے بعد وہ ریختہ کو دور سے ہی پروان پاتے ہوئے دیکھتے رہے ہیں
دراصل ابتدا میں ریختہ میں کام کرنے کے لیے جو لوگ آئے ان کا انتخاب/انتخاب کے لیے سفارش اسی گروپ نے کی جس میں پروفیسر احمد محفوظ پروفیسر عبدالرشید اور ڈاکٹر عمیر منظر شامل تھے۔پروفیسر عبدالرشید صاحب دلی والے ہیں اور یہ شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر تھے اور وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے ان کا اصل کام لغت اور تحقیق ہے ۔اس سال غالب انسٹیٹیوٹ اپنا باوقار ادبی و تحقیقی اوارڈ انہیں دے رہی ہے۔پروفیسر احمد محفوظ صاحب اس وقت شعبہ اردو جامعہ اسلامیہ کے صدر ہیں ۔میریات کے ماہر ہیں اور ایک بہت اہم تنقید نگار اور شاعر کے طور پر اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں ۔ابتدا سے اب تک جن لوگوں کا ریختہ فاؤنڈیشن سے سرگرم تعلق رہا ہے ان میں پروفیسر شہپر رسول ، پروفیسر عبدالرشید اور ڈاکٹر امیر منظر کے نام شامل ہیں ۔راجہ محمود آباد کی لائبریری سے کتابوں کے انتخاب کے لیے کہ جنہیں اسکین کر کے ای بک کا حصہ بنایا جا سکے ،اس ٹیم میں ڈاکٹر ڈاکٹر عمیر منظر اور پروفیسر عبدالرشید صاحب شامل تھے ۔اسی طرح بعض ہم ذاتی کتب خانوں تک رسائی اور بعض اہم کتابوں کو حاصل کرنے میں بہت سرگرم رول پروفیسر عبدالرشید صاحب اور ان کے ساتھ ڈاکٹر عمیر منظرنے ادا کیا ہے

 


Visit: Valley Vision News

Show More

Online Editor "Valley Vision"

Valley Vision News is your trusted source for authentic and unbiased news from the heart of Kashmir and beyond. We cover breaking news, culture, politics, and stories that matter, connecting local voices to global perspectives. Stay informed with us! "Empower your vision with truth, for every story has the power to change the world."

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button