علامہ اقبال: فلسفہ، شاعری اور تحریکِ خودی
کامران عطاری
علامہ اقبالؒ ایک عظیم شاعر، مفکر، سیاستدان اور فلسفی تھے جنہوں نے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک نئی روح پھونکی۔ ان کا تصورِ خودی اور ان کی شاعری نے مسلمانوں کو نئی زندگی دی اور انہیں اپنی تقدیر کو بدلنے کی تحریک دی۔ ان کی شاعری اور فلسفہ کی بنیاد پر، اقبال نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ وہ اپنی تقدیر کو خود بنا سکتے ہیں اور ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا رخ تبدیل کر سکتے ہیں۔
علامہ اقبال کا جنم 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں ہوا۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا اور ان کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ اقبال کے والدین کی حیثیت متوسط تھی، لیکن اقبال کی ذہانت اور شوق علم نے انہیں ایک نیا راستہ دکھایا۔ ابتدائی تعلیم اقبال نے سیالکوٹ کے ایک مدرسہ سے حاصل کی، جہاں انہوں نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور کلاسیکی ادب کا مطالعہ شروع کیا۔ بعد ازاں، انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اپنی تعلیم جاری رکھی جہاں وہ فلسفہ، ادب، اور اسلامی علوم کے طالب علم بنے۔
اقبال کا تعلیمی سفر ان کے کمالات کی ابتداء تھی۔ انہوں نے 1905 میں کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی اور پھر میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی ڈاکٹریٹ کا موضوع “تصورِ خودی” تھا، جو بعد میں ان کی شاعری اور فلسفے کی بنیاد بن گیا۔ اقبال نے اس وقت کے مسلمانوں کی حالت زار اور ان کے فکری سکوت کو محسوس کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے اپنی شاعری اور فلسفے کا استعمال کریں گے۔
علامہ اقبال کا فلسفہ “خودی” یا خودی کا تصور ایک اہم نظریہ تھا، جس کے ذریعے انہوں نے انسان کی اندرونی طاقت اور خود اعتمادی کو اُجاگر کیا۔ ان کا خیال تھا کہ انسان جب تک اپنی خودی کو پہچان کر اس کا احترام نہیں کرتا، وہ کسی بھی کام میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنی خودی کو پہچانیں، اسے بیدار کریں اور اپنی تقدیر خود بدلنے کی کوشش کریں۔
ان کی شاعری میں ایک خاص جوش اور جذبہ پایا جاتا تھا، جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے تھا بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھا۔ اقبال کی شاعری میں فلسفہ، سیاست، اور سماج کا گہرا تعلق تھا۔ وہ ایک طرف مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی حالت زار پر تنقید کرتے تھے تو دوسری طرف ان کو اپنی طاقت کا احساس دلاتے تھے اور انہیں اپنی خودی کے ذریعے دنیا میں ایک نیا مقام حاصل کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ اقبال کی شاعری نے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کی اور انہیں اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی ترغیب دی۔
علامہ اقبال کی شاعری کا ایک اہم پہلو ان کی نظمیں اور غزلیں تھیں جن میں انہوں نے انسانی عظمت، آزادی، اور خودی کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کی مشہور نظم “لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” اور “سفر میں ہوں میں، سفر کا مزہ آتا ہے” نے انسانیت کو ایک نئی سوچ اور نئی روشنی دی۔ ان کی شاعری کی زبان بھی بہت سادہ اور دل کو چھو جانے والی تھی، جس نے عام آدمی کو بھی اپنے پیغام کا قائل کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری میں مشرقی اور مغربی فلسفے کا حسین امتزاج پیش کیا اور دنیا کے مختلف فلسفیوں کے خیالات کو مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا۔اقبال کی شاعری میں ایک اور اہم عنصر ان کا نظریہ “ملت” تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان جب تک اپنے اختلافات کو مٹا کر ایک ملت بن کر نہیں اُٹھتے، وہ دنیا میں کوئی بھی اہم مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط اور متحد قوم کی تشکیل کا خواب دیکھا۔ ان کی شاعری میں یہ پیغام بار بار آتا تھا کہ مسلمان اپنی ملت کی عظمت کو سمجھیں اور اسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اقبال کا یہ پیغام نہ صرف مسلمانوں کے لیے تھا بلکہ انسانیت کے لیے تھا کہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور بھائی چارے کی بنیاد پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔
اقبال کا ایک اور مشہور نظریہ تھا “تحریکِ پاکستان”۔ وہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کے حق میں تھے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا قیام ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مذہبی، ثقافتی، اور سماجی حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ اقبال نے 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اپنے مشہور خطبے میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے تصور کو پیش کیا تھا۔ ان کے اس نظریے کو بعد میں پاکستان کے قیام کی صورت میں حقیقت کا رنگ ملا۔ اقبال کا یہ خواب ایک مضبوط اور خودمختار پاکستان تھا جہاں مسلمان اپنے تمام حقوق کے ساتھ آزادانہ زندگی گزار سکیں۔
علامہ اقبال نے ہمیشہ تعلیم اور علم کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ترقی اور خوشحالی صرف تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی اور کہا کہ جو قومیں علم سے محروم ہو جاتی ہیں، وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ اقبال کی شاعری میں علم، حکمت اور دانش کا ایک خاص پیغام تھا جس کا مقصد مسلمانوں کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر لے جانا تھا۔
اقبال کی زندگی کا مقصد صرف شاعری تک محدود نہیں تھا، بلکہ انہوں نے عملی طور پر بھی مسلمانوں کی خدمت کی۔ وہ ایک فلسفی اور دانشور کے طور پر مسلمانوں کی فکری رہنمائی کرتے تھے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے مختلف فورمز پر آواز اُٹھاتے تھے۔ اقبال نے ہمیشہ مسلمانوں کو یہ سکھایا کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے کم نہ سمجھیں اور اپنی تقدیر کو خود بدلیں۔ ان کی زندگی اور شاعری نے مسلمان معاشرے کو ایک نیا زاویہ فراہم کیا جسے آج بھی ہم اپنے معاشرتی، سیاسی، اور ثقافتی معاملات میں استعمال کر سکتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری نہ صرف مسلمانوں کے لیے تھی بلکہ ان کا پیغام تمام انسانیت کے لیے تھا۔ انہوں نے انسان کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے اور دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی ترغیب دی۔ اقبال کا یہ پیغام آج بھی زندہ ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اقبال کی زندگی اور شاعری نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئی روشنی دی اور ان کی فکر اور فلسفے نے لوگوں کو ہمیشہ نئے افق کی تلاش میں رہنے کی ترغیب دی۔
علامہ اقبال کی شاعری کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے پیغام کو ایک تحریک کی صورت میں پیش کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاعری صرف خوبصورتی اور ذاتی اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ اس کا مقصد کسی قوم کو بیدار کرنا، انہیں اپنی تقدیر پر قابو پانے کی ترغیب دینا اور ان میں ایک نئی روح پھونکنا تھا۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو یہ سکھایا کہ ان کے اندر خودی کی طاقت ہے، اور اگر وہ اپنی طاقت کو پہچان کر اس کا استعمال کریں تو دنیا میں کوئی بھی مشکل ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔
یقیناً، اقبال کی شاعری ایک زندہ رہنے والی تحریک ہے جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستی ہے۔ ان کی فکر اور فلسفہ نے مسلمانوں کی تقدیر کو بدلنے کا خواب دیکھا، اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے ایک نیا راستہ فراہم کیا۔ اقبال کی شاعری آج بھی نوجوانوں کو بیدار کرنے، انہیں اپنی خودی کو سمجھنے اور دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی ترغیب دیتی ہے۔ اقبال کا پیغام ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان کی شاعری مسلمانوں کی رہنمائی کا ایک ذریعہ بنے گی۔
علامہ اقبال کا فلسفہ اور شاعری نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں اثرات چھوڑنے والی ہیں۔ ان کی سوچ اور نظریات نے مسلمانوں کو ایک نئی سمت دکھائی، اور ان کے پیغام نے دنیا بھر میں آزادی، خود مختاری، اور انسانی وقار کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو حوصلہ دیا۔ اقبال کے تصورِ خودی نے ان افراد کو بیدار کیا جو اپنی حالت سے مایوس تھے اور انہوں نے اپنی تقدیر کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اقبال نے مسلمانوں کو اپنے ماضی کے افتخار کو یاد دلایا اور انہیں یہ باور کرایا کہ وہ کسی بھی طور پر دوسروں سے کم نہیں ہیں۔ ان کا یقین تھا کہ مسلمانوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کے اہم ترین ممالک اور اقوام کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ اپنی روحانی اور فکری قوت کو پہچانیں۔
اقبال کا سیاسی وژن ان کے فلسفے سے ہم آہنگ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے لیے اپنی ریاست کا قیام ضروری تھا تاکہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔ وہ ایک ایسی ریاست کے حامی تھے جہاں مذہب، ثقافت، اور سیاست ایک ہی نقطہ پر مرکوز ہوں۔ ان کے خیالات نے نہ صرف مسلمانوں کی نظریاتی تحریکوں کو تقویت دی بلکہ پاکستان کے قیام کی بنیاد بھی رکھی۔ ان کے مطابق، مسلمانوں کا ایک الگ وطن ہونا ضروری تھا تاکہ وہ اپنی شناخت، مذہبی آزادی، اور سیاسی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ ان کے اس فلسفے کو نہ صرف سیاسی رہنماؤں نے سراہا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس پر بات کی گئی۔
علامہ اقبال کی شاعری میں ایک انقلابی سوچ پنہاں تھی جس نے ان کے معاصرین کو متاثر کیا اور آج بھی ان کی شاعری کو پڑھ کر انسانیت کو ایک نیا زاویہ نظر آتا ہے۔ اقبال کا پیغام صرف مسلمانوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ ان کی شاعری میں انسانیت کا پیغام تھا۔ وہ انسان کو اپنی فطری صلاحیتوں کو پہچان کر دنیا میں اپنے مقام کو مستحکم کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ ان کا فلسفہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ ہر انسان کی عظمت اس کی خودی میں ہے اور اس عظمت کو پہچان کر ہی وہ کامیابی کی بلندیاں حاصل کر سکتا ہے۔
اقبال نے اپنی شاعری میں نہ صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی بات کی، بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کے لیے ایک نیا پیغام دیا۔ ان کی شاعری کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے انسان کے اندر موجود روحانیت اور جسمانی صلاحیتوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے مطابق، انسان صرف جسمانی طور پر نہیں، بلکہ روحانیت کے ذریعے بھی عظمت حاصل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک روحانی پہلو بھی پایا جاتا ہے جو انسان کو اپنے اندر کی حقیقت کو تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اقبال کی شاعری میں انسان کی آزادی، خودمختاری، اور فکری خود انحصاری کا پیغام تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ انسان اپنے اندر موجود قوتوں کو پہچانے اور ان کا استعمال کرے تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے۔ ان کا یہ پیغام آج بھی نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اقبال کا خواب تھا کہ دنیا میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ امن اور محبت سے رہیں اور اپنی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔
آج جب ہم علامہ اقبال کی شاعری کو پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کا پیغام کبھی بھی پرانا نہیں ہو سکتا۔ وہ وقتاً فوقتاً ہمیں اپنی فطرت کے بارے میں یاد دلاتے ہیں اور ہماری اندرونی طاقت کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری ایک مستقل تحریک کی مانند ہے جو انسانیت کو جینے کی درست راہ دکھاتی ہے۔ اقبال کا پیغام ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان کی فکری میراث آنے والی نسلوں کو بہتر انسان بنانے میں معاون ثابت ہو گی۔