غرباء کی مدد: ایک اسلامی تعلیم
Er Ahmad Junaid
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانیت کی بھلائی اور فلاح و بہبود پر زور دیتا ہے۔ اس میں غرباء اور ضرورت مندوں کی مدد کو ایک بنیادی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا ایسے احکامات ملتے ہیں جن میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنے مال و دولت میں سے ایک حصہ ضرورت مندوں کے لیے مخصوص کریں۔ رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں غرباء کے ساتھ حسن سلوک کے بے شمار واقعات ملتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ غرباء کی مدد صرف مادی تعاون تک محدود نہیں بلکہ ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا، ان کے مسائل سننا، اور انہیں عزت و وقار کے ساتھ جینے کا موقع فراہم کرنا بھی مدد کے زمرے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے والی قومیں ہمیشہ مضبوط اور خوشحال رہتی ہیں۔
غرباء کے ساتھ ہمدردی کی اہمیت
اسلام میں غرباء کے ساتھ ہمدردی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکو۔” (البقرہ: 43)
اس آیت میں زکوٰۃ دینے کو نماز کے ساتھ جوڑ کر غرباء کی مدد کو عبادت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ نہ صرف مسلمانوں کی دولت کو پاک کرتی ہے بلکہ معاشرے میں غربت کو کم کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرے گا، اللہ قیامت کے دن اس کی حاجت پوری کرے گا۔”
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غرباء کی مدد کرنا نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی کامیابی کا بھی ذریعہ ہے۔ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا غرباء کو دلجوئی فراہم کرتا ہے اور معاشرے میں امن و محبت کو فروغ دیتا ہے۔
صدقہ و خیرات کا اجر
اسلام میں صدقہ و خیرات کو ایک عظیم عبادت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا:
“جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کا حال اس دانے کی مانند ہے جو سات بالیں اُگاتا ہے، ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں۔” (البقرہ: 261)
صدقہ نہ صرف غریبوں کی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ دینے والے کے دل کو سکون اور برکت عطا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو غرباء کی زندگی میں خوشحالی لا سکتا ہے اور دینے والے کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“صدقہ برائی کو بجھاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔”
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صدقہ و خیرات دینے سے نہ صرف گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے بلکہ یہ روحانی سکون کا بھی باعث بنتا ہے۔
زکوٰۃ کی افادیت
زکوٰۃ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے جو مسلمانوں کو اپنے مال کا ایک خاص حصہ غرباء اور مساکین کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ زکوٰۃ کا مقصد معاشرتی مساوات کو فروغ دینا اور غربت کا خاتمہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“ان کے مال میں سوال کرنے والوں اور محروموں کا حق ہے۔” (الذاریات: 19)
زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کے ضرورت مند افراد کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ نہ صرف غریبوں کو خوشحال بناتی ہے بلکہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بھی روکتی ہے۔ زکوٰۃ کے نظام کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے جہاں ہر فرد خوشحال اور مطمئن ہو۔
سخاوت اور دل کھول کر دینے کی فضیلت
اسلام میں سخاوت کو ایک اعلیٰ صفت قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“سخی شخص اللہ کے قریب، جنت کے قریب اور لوگوں کے قریب ہوتا ہے، اور بخیل اللہ سے دور، جنت سے دور اور لوگوں سے دور ہوتا ہے۔”
سخاوت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں خوش دلی کا مظاہرہ کرے۔ یہ عمل انسان کے دل کو نرم کرتا ہے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک سخی شخص غرباء کی مدد کر کے نہ صرف ان کے دل جیت لیتا ہے بلکہ اللہ کی خوشنودی بھی حاصل کرتا ہے۔
غربت کے خاتمے میں مسلمانوں کا کردار
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غربت کے خاتمے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوشش کریں۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ غرباء کے لیے مختص کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کرے۔ اگر ہر مسلمان اس ذمہ داری کو ادا کرے تو معاشرے میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
“مومن مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔”
یہ حدیث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے تاکہ معاشرہ مضبوط اور خوشحال ہو سکے۔
غرباء کی مدد کا نفسیاتی پہلو
غرباء کی مدد کرنا نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ اس کے کئی نفسیاتی فوائد بھی ہیں۔ مدد کرنے والے کو دلی سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، جبکہ ضرورت مند کو اپنی عزت نفس بحال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
“مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔”
یہ حدیث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ غرباء کے ساتھ نہایت نرمی اور محبت سے پیش آنا چاہیے۔ ان کی ضروریات پوری کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا معاشرے میں خوشگوار تعلقات کا باعث بنتا ہے۔
تعلیم کے ذریعے غربت کا خاتمہ
تعلیم کو غربت کے خاتمے کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“کیا علم والے اور بغیر علم والے برابر ہو سکتے ہیں؟” (الزمر: 9)
تعلیم غرباء کو خود کفیل بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ غرباء کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد فراہم کریں۔ اس سے نہ صرف ان کا مستقبل روشن ہوگا بلکہ وہ خود اپنی مدد کرنے کے قابل ہوں گے۔ تعلیم کے ذریعے غربت کا خاتمہ اسلام کی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے۔
غرباء کی مدد کے عملی طریقے
اسلام مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے غرباء کی مدد کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ زکوٰۃ، صدقہ، خیرات اور فطرانہ جیسے ذرائع غرباء کی مالی مدد کے لیے بہترین ہیں۔ اس کے علاوہ، غریبوں کو روزگار فراہم کرنا، ان کے بچوں کو تعلیم دینا، اور ان کے علاج معالجے کا بندوبست کرنا بھی مدد کے عملی طریقے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
“سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو کسی غریب کو خود کفیل بنا دے۔”
یہ حدیث ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ مدد کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ضرورت مندوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ خود اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔
غرباء کی مدد اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی انصاف کو فروغ دیتا ہے بلکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق غرباء کی مدد کرے تاکہ معاشرے میں غربت کا خاتمہ ہو سکے اور ایک مضبوط، خوشحال اور پرامن معاشرہ وجود میں آئے۔ غرباء کی مدد کرنے سے نہ صرف ضرورت مندوں کی زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ دینے والے کو بھی دنیا اور آخرت میں بے شمار انعامات ملتے ہیں۔