Blogs & Articles

قرآن مجید کی روشنی میں وراثت کے حقوق: عدالت کا اہم فیصلہ

راتھر سمیر

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمام انسانوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق دیے ہیں، جن میں عورتوں اور مردوں کے لیے وراثت کے حصے بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم فیصلہ حال ہی میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے کیا، جس میں اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ قرآن مجید میں وراثت کا حق پہلے عورت کو دیا گیا ہے، اور پھر مرد کو۔ یہ فیصلہ ایک طویل عرصے سے جاری قانونی جدوجہد کے دوران آیا، جس میں ایک خاتون، مختی، نے اپنی والد کے جائیداد سے حصے کا مطالبہ کیا تھا۔ہائی کورٹ کے جج جسٹس ونود چترجی کول نے اس فیصلے میں کہا کہ ایک مسلمان بیٹی کو اس کے والد کی جائیداد سے وراثت میں حصہ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن مجید کی سورۃ النساء کی آیت نمبر گیارہ میں وراثت کی تقسیم کے حوالے سے واضح ہدایات موجود ہیں، جس کے مطابق مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملتا ہے۔ تاہم، اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عورتوں کو وراثت کا حق نہیں دیا جاتا، بلکہ اس کا مقصد مردوں کو یہ اضافی حصہ اس لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے گھرانے کی ضروریات پوری کرنے کے ذمہ دار ہوں۔یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا جب مختی کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں اس وراثتی لڑائی کا حصہ بن گئے، جس کا آغاز 1981 میں ان کی والدہ کے جائیداد سے حصے کے مطالبے کے ساتھ ہوا تھا۔ مختی کے بھائی نے اس پر اعتراض کیا تھا اور اس کے جائیداد سے اس کو بے دخل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہائی کورٹ نے یہ واضح کیا کہ نہ صرف مختی کا حق وراثت ثابت ہے بلکہ اس کے بچوں کو بھی اس حق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔عدلیہ کے اس فیصلے نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مسلمان شخصیات اپنے مذہب کی تمام عبادات اور فرادی کے مطابق زندگی گزارنے کے باوجود بعض اوقات وراثت کے مسائل پر اسلامی اصولوں سے انحراف کرتے ہیں۔ جیسے کہ عدالت نے کہا کہ وراثت کے معاملات میں بعض افراد محض رسم و رواج یا عادات کا سہارا لیتے ہیں، جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام نے وراثت میں مرد اور عورت کے حقوق کا تعین کیا ہے اور کسی بھی جواز یا بہانے سے ان حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔قرآن مجید میں وراثت کی تقسیم کے اصول اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہر وارث کو اس کا حق ملے، اور یہ اصول کسی بھی مذہب یا ثقافت کی سرحدوں سے باہر ہیں۔ قرآن کی تعلیمات کے مطابق، مرد کو دوگنا حصہ اس لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کے افراد کی مالی مدد کر سکے، خاص طور پر اپنی بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کرے۔ اسی طرح، بیٹی کو اس کے حصے کا حق ملتا ہے، اور اس کے والدین کے ساتھ اس کا تعلق اور محبت کا احترام کیا جاتا ہے۔یہ فیصلہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک اہم رہنمائی فراہم کرتا ہے، بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ عدلیہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اسلامی قوانین کی پیروی کرتی ہے اور انہیں ملکی قانون کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ مسلمانوں کے وراثتی حقوق کے حوالے سے قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔عدلیہ نے اس فیصلے کے ذریعے اس بات کو تسلیم کیا کہ نہ صرف عدالتوں بلکہ انتظامی افسران کو بھی اسلامی قانون اور اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جو افسران مسلم ذاتی قوانین سے لاعلم ہیں یا انہیں نظرانداز کرتے ہیں، ان کے فیصلے غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہو سکتے ہیں۔ جج نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیمات کے باوجود ان کے وراثتی حقوق سے انکار کیا جائے۔اس فیصلے کی بنیاد پر، ہائی کورٹ نے سرکاری محکموں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے فیصلوں کو قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق عمل میں لائیں اور مختی کے خاندان کو اس کی والدہ کا حصہ فراہم کریں۔ اس حکم کی تکمیل کے لیے تین ماہ کی مدت رکھی گئی، تاکہ مختی کے بچوں کو ان کے قانونی حقوق مل سکیں۔ اس فیصلے کا مقصد نہ صرف مختی کی وراثت کو تسلیم کرنا تھا بلکہ یہ پیغام بھی دینا تھا کہ کوئی بھی فرد اپنے حقوق کے لیے انصاف کی درخواست کر سکتا ہے اور عدالت اس کی حفاظت کرے گی۔یہ فیصلہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے درمیان وراثت کے حقوق کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا ہے۔ اس نے نہ صرف ایک فرد کی جدوجہد کو کامیاب بنایا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ قرآن مجید میں بیان کردہ وراثتی قوانین کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے نے یہ بھی ثابت کیا کہ عدلیہ اپنے کردار کو نبھاتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامی قوانین کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔اس فیصلے کا اثر نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ دیگر مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی پڑے گا۔ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مسلمان اپنے وراثتی حقوق کو تسلیم کروانے میں کسی بھی رکاوٹ کا سامنا نہ کریں اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہ فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ ہمیں اپنی قانونی اور مذہبی ذمہ داریوں کا ادراک ہونا چاہیے تاکہ ہم اپنے معاشرتی اور اخلاقی فرادیوں کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
اس فیصلے کے اثرات نہ صرف اس کیس تک محدود ہیں بلکہ اس نے ایک وسیع تر سماجی اور قانونی پیغام بھی دیا ہے جو مسلمانوں کے وراثتی حقوق کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اس فیصلے نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ قرآن مجید میں دی گئی ہدایات کی پیروی کرنا صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قانونی اور سماجی ذمہ داری بھی ہے جو ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔جب ہم اسلامی قوانین کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بات واضح طور پر سمجھنی چاہیے کہ قرآن مجید نے وراثت کی تقسیم میں مرد اور عورت کے حقوق کو پورے انصاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ النساء میں وراثت کی تقسیم کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملتا ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بیٹی کا حصہ کم تر ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ بیٹے کو اضافی حصہ اس لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اسلام نے بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ خواتین بھی اپنے والدین کی جائیداد میں برابر کے حقوق رکھتی ہیں۔یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نہ صرف اسلامی معاشرت میں بلکہ دنیا بھر میں خواتین کو ان کے وراثتی حقوق دینے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت اس وقت اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کئی مسلم ممالک میں خواتین کو وراثت کے حقوق دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان ممالک میں بعض روایات اور رسوم و رواج خواتین کو ان کے قانونی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ ایسے میں اس طرح کے عدالتی فیصلے ایک بڑی کامیابی کی علامت ہیں اور یہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک قدم آگے بڑھنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس فیصلے کی اہمیت اس بات سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں آیا جب اسلامی دنیا میں خواتین کے وراثتی حقوق پر بات چیت ہو رہی ہے۔ مختلف مسلمان ممالک میں وراثت کے حوالے سے الگ الگ قوانین ہیں اور بعض اوقات ان قوانین کا اطلاق مساوات کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ مسلمان ممالک میں عدلیہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق فیصلے کریں تاکہ انصاف کا عمل مکمل طور پر عمل میں لایا جا سکے۔اس فیصلے کے بعد اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمان معاشروں میں اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ خواتین بھی اپنے خاندانوں کی جائیداد میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اس فیصلے نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ وراثت کا حق کسی بھی جواز یا بہانے سے چھینا نہیں جا سکتا۔ عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ مختی کو اس کے والد کی جائیداد میں حق وراثت ملنا چاہیے، اور اس کے بھائیوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی بہن کو اس کے حقوق سے محروم کریں۔اس فیصلے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس نے عدالت کے کردار کو مزید مضبوط کیا ہے۔ عدلیہ نے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف قانون کے مطابق فیصلے کرنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ معاشرتی انصاف کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنے حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کرتا ہے، تو عدالت اسے انصاف فراہم کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ اس فیصلے نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ اگر انتظامی افسران یا دیگر متعلقہ ادارے کسی شخص کے حقوق کو نظرانداز کرتے ہیں تو عدالت ان حقوق کے تحفظ کے لیے قدم اٹھائے گی۔اس کے علاوہ، اس فیصلے نے مسلمانوں کے درمیان عدلیہ کے کردار کو بھی مزید مضبوط کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ مسلمان معاشرت میں عدالتوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جب تک ہم اپنی عدلیہ کو مضبوط اور خود مختار نہیں بناتے، تب تک ہم اپنے معاشرتی مسائل کو درست طور پر حل نہیں کر سکتے۔ اس فیصلے نے یہ ثابت کیا کہ عدلیہ کو نہ صرف قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے بلکہ انہیں معاشرتی اور مذہبی انصاف کے اصولوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔یہ فیصلہ ایک سبق ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم کا عمل مکمل طور پر واضح ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی بھول چوک کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن مجید نے وراثت کی تقسیم کے حوالے سے واضح ہدایات دی ہیں اور مسلمانوں کو ان ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ عدلیہ نے ان ہدایات کو اپنانے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور اس کے مطابق فیصلے کیے ہیں۔ اس فیصلے نے اس بات کو ثابت کیا کہ مسلمانوں کے درمیان وراثت کے حقوق کی تحفظ کی ضرورت ہے اور عدلیہ کا کردار اس میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس فیصلے کے بعد مسلمانوں کے درمیان وراثت کے حوالے سے آگاہی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وراثت کا حق صرف مردوں کا نہیں ہے، بلکہ عورتوں کو بھی اس میں حصہ دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جو اسلام نے تمام معاشرتوں میں نافذ کیا ہے اور اس پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے معاشرتی رواجوں کو قرآن اور حدیث کے مطابق ڈھالیں اور خواتین کے حقوق کا احترام کریں۔اس کے علاوہ، اس فیصلے نے ہمیں یہ سبق بھی دیا ہے کہ ہمیں اپنے اسلامی قوانین اور اصولوں کی پوری تفصیل سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔ جب تک ہم اپنے مذہب کی تعلیمات کو صحیح طور پر نہیں سمجھیں گے، تب تک ہم اپنے معاشرتی مسائل کا صحیح حل نہیں نکال سکیں گے۔ اس فیصلے نے اس بات کو ثابت کیا کہ اسلام میں خواتین کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے اور ہمیں ان حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے معاشرتی رواجوں کو بھی صحیح سمت میں ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کے اصولوں کی تکمیل ہو سکے۔آخرکار، اس فیصلے نے ہمیں یہ سبق دیا کہ انصاف کا راستہ ہمیشہ قرآن اور سنت کی پیروی کرنے میں ہے۔ اسلامی معاشرت میں عدلیہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ہمیں اس پر پورا اعتماد کرنا چاہیے۔ اس فیصلے نے اس بات کو واضح کیا کہ عدالتیں نہ صرف قانونی بلکہ سماجی انصاف کے اصولوں کے مطابق بھی فیصلے کرتی ہیں اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ اس فیصلے نے اس بات کو ثابت کیا کہ اگر ہم قرآن اور سنت کے مطابق زندگی گزاریں گے تو ہماری معاشرت میں انصاف اور مساوات قائم ہو گی۔

Show More

Online Editor "Valley Vision"

Valley Vision News is your trusted source for authentic and unbiased news from the heart of Kashmir and beyond. We cover breaking news, culture, politics, and stories that matter, connecting local voices to global perspectives. Stay informed with us! "Empower your vision with truth, for every story has the power to change the world."

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button