مرکب نظام گورننس میں تبدیلی کی ضرورت – Chattan Daily Newspaper:Valley Vision
از:جہاں زیب بٹ
ویجی لینس بیداری ہفتہ کے سلسلے میں سول سیکرٹریٹ سرینگر میں بدعنوانی سے پاک جموں کشمیر کا عہد لینے کے بعد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کابینہ وزراء اور انتظامی سیکرٹریوں سے خطاب کرتے ہویے کہا کہ اس عہد کا کچھ مطلب ہو نا چاہیے ۔وزیر اعلی کی تقریر میں جہاں مرکب طرز حکومت کی خامیوں کی طرف واضح اشارہ موجو دتھا وہیں لوگوں کو بدعنوانی کی لعنت سے آذاد انتظامیہ فراہم کرنے کی ان کی سنجیدگی کا اندازہ بھی ہو گیا۔عمر عبداللہ کو پکا احساس ہے کہ رشوت خوری سماج کی نس نس اور شریانوں میں سرایت کرچکی ہے۔رشوت کلچر پیدا ہو نے کے کچھ اور عوامل ہیں لیکن اس بدقماش کلچر کو پروان چڑھانے میں سیاسی لیڈروں نے عمریں صرف کیں جس بناء پر راشیانہ مزاج کی حامل افسر شاہی کو پھلنے پھو لنے کا خوب موقعہ ملا۔عوامی حلقے مانتے ہیں کہ ایل جی انتظامیہ کو یہ کریڈیٹ جا تا ہے کہ اس نے ملازمین کو کس کر رکھ دیا ۔نیے سرے سےانکی ناک میں نکیل ڈال دی اور جیسے تیسے ان کے دل میں کاروایی کی ہیبت ڈال دی۔ہم نہیں کہتے کہ کرپشن کا سو فیصد قلع قمع ہو گیا مگر شکایت پر کاروایی ہو نے کا خوف نافذ ہو گیا اور اعلانیہ رشوت خوری کا دروازہ بند ہوگیا۔رشوت کو سب سے زیادہ تقویت جس چیز سے ملتی ہے وہ چور دروازے سے سرکاری محکموں میں بھرتی کا غیر منصفانہ طریقہ کا رہے جو اب تک ہر عوامی حکومت کا خاصہ رہا ہے۔دور مت جایے ایک مثال ہی لیں ۔گزشتہ پی ڈی پی بھا جپا حکومت میں جموں کشمیر بینک کی ریکروٹمنٹ عمل میں ریکارڈ توڑ دھاندلیاں ہو ئیں ۔نہ صرف سلیکشن پروسیس میں قابلیت پر پیسہ بٹورنے کو ترجیح دی گیی بلکہ تب کچھ امیدواروں نے ثبوت پیش کیے کہ کس طرح درخواستیں جمع کیے بغیر اور تحریری اور ذبانی امتحانات کا پلصراط پار کیے بغیر بہت سے امیر زادوں نے محض سیاسی اثر ورسوخ اور اونچے دام دے کر ملازمت حاصل کی۔ اس کے برعکس ایل جی انتظامیہ میں جتنے سلیکشن لسٹ منظر عام پر آیے قابلیت اور استحقاق میں ایک آدھ عشاریہ کا ہیر پھیر تھا نہ کسی فریق کو شکوہ شکایت کا کویی جواز ہاتھ آیا ۔شفافیت اور انصاف کا ایک بہترین طریقہ کار اپنایا گیا جس کےلیے ایل جی انتظامیہ کو ہمیشہ یادرکھا جا یے گا۔ جمہوری طور چنی گئی سرکار سے اس سے بہتر عوام دوست حکومتی ماڈل کی امید ہے جس میں بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی شامل ہو تو عمر عبداللہ عوام کے دل جیتنے اور انکی تو قعات پر پورا اترنے کے مشن میں کامیاب ووکامران۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ عمر عبداللہ نے بدعنوانی سے پاک جموں کشمیر تعمیر کر نے کے عزم کا اظہا ر کیا ہے ۔انھوں نے آفیسروں کو خبردار کیا کہ وہ بدعنوانی کے لیے مرکب گورننس کو ڈھا ل نہ بناییں اور یاد رکھیں کہ یہ عارضی مرحلہ ہے جس سے وہ زیادہ دیر تک لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔عمر عبداللہ نے دعویٰ کیا کہ انھیں گورننس کے ڈھانچے میں تبدیلی کے حوالے سے اعلیٰ ترین سطح پر یقین دہانی ملی ہے جس سے یہ مطلب لیا جا رہا ہے کہ وزیراعلی دلی میں پرایم منسٹر مودی ،ہوم منسٹر امت شاہ اور دوسرے اہم مرکزی وزراء سے جو ملاقاتیں کر کے لو ٹے ہیں ان سے وہ نا امید نہیں ہیں بلکہ وہ سٹیٹ ہڈ کی بحالی کے بارے پر امید اور پر اعتماد ہیں ۔اگر عمر عبداللہ سچ میں سٹیٹ لاسکے تو یہ انکی کامیابی کے ضمن میں اہم سنگ میل ثابت ہوگی ۔
مرکب نظام گورننس نیا تجربہ ہے انوکھا ماڈل ہے جو بھاری عوامی منڈیٹ کے باوجود عمر عبداللہ کے حصے میں آیا۔دو پاور سینٹروں والا نظام حکومت پیچیدگیوں اور خامیوں سے لبریز ہے اور اس کو چلانا کارے دارد والا معاملہ ہے۔اس میں اختیار ات کی منصفانہ تقسیم ممکن ہے نہ حاکمانہ پوزیشن کے تعین کا کو یی پیمانہ چلتا ہے نہ ہی اختیارات کے استعمال کی حد مقرر رہتی ہے نہ اس کا کویی خیا ل ذہن میں رہتا ہے اور نہ ہی اپنے کام کا ج کے دایرے کا کو یی اندازہ کر نا ممکن ہے۔ظاہر ہے کہ مخلوط یا مرکب گورننس عمر عبداللہ کو انتظامیہ پر گرفت رکھنے دے گی نہ وہ انتخابی وعدوں کو پورا کرسکیں گے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں ریاستی درجہ کی۔ بحالی سے متعلق قرارداد پاس کی اور اولین فرصت میں اس کو پرایم منسٹر مودی اور ہوم منسٹر امت شاہ کے سامنے پیش کیا ۔اس پر ہمدردانہ غور ہوا تو بدعنوانی سمیت عوامی اہمیت کے ڈھیر سارے مسایل حل ہو نے کا امکان روشن ہوگا۔
Source link
ویلی ویژن