مہاراشٹر کےنتائج ۔۔مودی کا دبد بہ قائم
ش،م ،احمد
مہاراشٹر اور جہارکھنڈ کی ریاستی اسمبلیوں کے لئے انتخابی دَنگل جتنی دلچسپ رہی‘ اُ تنے ہی ان کے نتائج کافی چونکا دینے والے رہے۔ اپوزیشن کیمپ( انڈیا بلاک) سمیت بعض بڑ بولے تجزیہ نگار ‘ مبصرین اور یُوٹیوبر وہم وگمان کی وادیوں میں بھٹک کر بلند بانگ دعوے کرتے تھے کہ مہاراشٹر کا قلعہ مودی( این ڈی اے) کے لئے سر کرنا دیوانے کی بڑ ہوگی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جہاں anti-incumbancy کی لہر چل رہی ہو‘شنڈے‘ فرنڈنویس اور اجیت پوار کے بیچ سر د جنگ جاری ہو‘ اُن کے مقابلے میں شرد پوار‘ اودھے ٹھاکرے ‘ ناناپٹولے جیسے انتخابی اکھاڑے کے ناقابلِ شکست سیاسی پہلوان مل کر مراٹھا گورَو اور مان سمان کے رکھشک کی حیثیت سے بھاجپا کو چاروں شانے چت کرنے کے قریب ہوں‘ لہٰذا اب کی بار ایم وی اے سرکار کی واپسی شرطیہ طور یقینی تھی ۔ سادہ لفظوں میں ان لوگوں کی دانست میں ۲۳؍ نومبر کو ملک کی معاشی اور ثقافتی شہ رَگ مہاراشٹر کے طول وعرض میں بھاجپا کی ہار پتھر کی لکیر مانند طے تھی ‘ جب کہ انڈین نیشنل کانگریس ‘شو سینا( اودھو ٹھاکرے گروپ) اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی( شرد پوار گروپ) کی جیت پر مہر تصدیق ثبت ہونا مہاراشٹر کے مہا یُدھ کا مقدر تھا۔ ہاں‘ جہارکھنڈ میں بھاجپا اپنےحریف جے ایم ایم ( جہار کھنڈ مکتی مورچہ) کے خلاف فتح کا پھریرا لہرانے کی پوزیشن میں ہوگی۔ سارے اندازےغلط اور تمام قیاسات بے بنیاد اور خود فریبی ۔ مہاراشٹر میں این ڈی اے کی جیت ہوئی جب کہ جہار کھنڈ میںہیمنت سورین کے صدقے انڈیا الائنس کی حکومت بنی ۔ ہیمنت سورین دوبارہ وزارت اعلیٰ کی گدی سنبھالنے والے ہیں۔ سیاسی ہفت خوان کی ان کھٹی میٹھی ڈکاروں کے بعد جب ای ایم مشینوں نے۲۳ ؍نومبر کی صبح دس ساڑھے دس بجے تک مہاراشٹر کے لگ بھگ تمام رجحانات اور نتائج اُگل ڈالے‘ تو
بڑ بولوں کی بولتی بند ہوئی۔ اُن کے ظن وتخمین کے علی الرغم جو نتائج برآمد ہوئے ‘وہ اُن کے قیاس وخیال کو یکسر جھٹلاگئے۔ مہاراشٹر میں بھاجپا والے انتخابی اتحادمہا یگتی کے حق میں متاثرکن نتائج سے ہریانہ ماڈل کا من وعن اعادہ ہوا ۔ ا ن سے دیش اور دنیا کو دوبارہ یہ پیغام ملا کہ وزیراعظم مودی کا سیاسی جادو ابھی تک بلا شرکت غیرے قائم ودائم ہے اور واضح ہوا کہ انڈیا کا چہیتا مودی ہے ۔بے شک اُنہیں ۲۰۲۴ میںتیسری بار وزارت ِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لئے نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کی حمایت کی مجبورانہ احتیاج رہی کیونکہ لوک سبھا میں ۲۷۲؍ ممبران کی سادہ اکثریت پانے کی راہ میں بی جے پی کو چند نشستوں کی کمی کا سامنا رہا ‘ ا س سے پارٹی کی کچھ سبکی بھی ضرور ہوئی مگر ہر یانہ کے بعد اب مہاراشٹر نے ایک ہی جست میں مودی کے سیاسی چال چر تر چہرے کی چمک دمک پھر سے لوٹا دی ۔ یہ ہےسیاسی نصیبوں کا کھیل جو کسی زمانے میںکانگریس کا تعارف ہوا کرتا تھا۔
چند ماہ پہلے ہوئی پی ایم مودی کی اس تقریر کو یاد کیجئے جس میں انہوں نے ہریانہ میں اپنی معجزہ نما جیت کے موقع پر پیش گوئی کے انداز میں صاف اشارہ دیا تھا کہ ہریانہ اسمبلی الیکشن کے شاندار نتائج آ گے بھی دہرائے جائیں گے۔ مطلب صاف تھا کہ مہاراشٹر میںاُن کی جیت پکی ہے ۔ اُن کےاس ایک جملے کےا ندر معانیوں کی ایک دنیا بسی ہوئی تھی۔ آپ اسےاُن کی سیاسی نبضںشناسی سمجھیں یا اپنے پُر کشش سیاسی پروگراموں کا چمتکار اور عوام پر اٹل بھروسے کا اظہار کہیں‘ وقت نے صد فی صد ثابت کیا کہ یہ بول کےوہ کوئی ہوائی قلعہ نہیں بنا رہے تھے‘ نہ خالی خولی دعوؤں سے اپناحمام گرما رہے تھے بلکہ اُن کی ساری توجہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے اگلے ہدف پر مرکوز تھی یعنی مہاراشٹر میں بھاجپا پھرسے ریاستی حکومت بناسکے ۔ وزیراعظم کی یہ پیش بینی محض کرسی سے چمٹے رہنے کی روایتی کھینچا تانی نہ تھی بلکہ مرکز میں اپنے سیاسی بقا و دوام کے لئے بھاجپا کے لئےمہاراشٹر جیسی اہم ریاست میں اپنی جیت کا پرچم لہرانا موت وحیات جیسا فیصلہ کن چلنج تھا۔ اسی مہاراشٹر نے چار پانچ ماہ پہلے لوک سبھا الیکشن کے موقع پر پارٹی کو بڑا جھٹکا دیا تھا‘ لیکن اب اسمبلی کے انتخابی معرکے میں مودی برینڈنے مہاراشٹر کےمحاذ پر اپنی پیش قدمی کر کے بالفعل دکھایا کہ اُن کے سیاسی اقبال کا دَم خم ابھی قائم و دائم ہے ‘ عام ووٹر انہیں اپنی سیاسی حمایت دینے میں کسی پس وپیش یا تذبذب کا شکار نہیں ‘ اپوزیشن خیمے میں کوئی ایسا سیاسی مہارتھی ابھی تک پیدا ہی نہ ہوا جو اُن کا متبادل ہونے کا خواب شرمندہ کر نے میںکا میاب رہ سکے ۔ بین السطورمہاراشٹر کی جیت نے یہ پیغام بھی دیا کہ انتخابی میدان مارنے کے لئے جاذبِ نظر نعرہ ہی نہیں چلتابلکہ لوگوں کو اپنی طرف رجھانے کے لئے ایک مستندومعتبر چہرہ‘ تازہ دم پالیسیاں اور اچھے بھاشن بھی چاہیے۔ مہایگتی نے ان لوازمات کو نہ صرف پورا کیا بلکہ زمینی حقا ئق سے جڑیں بعض پاپولسٹ قسم کی سہولیاتی اور مراعاتی حکمت عملیاں عوامی سوچ کومتاثر کر نے کے لئے بہ عجلت و ضع کردیں۔اس نے سماج کے پچھڑے ہوئے طبقات کی خالی پڑیں جیبیں تھوڑا بہت بھرنے کےوعدے بھی بروئےکار لائے۔ سچ میںان انتخابی وعدوں میں عام غربا کے لئے کا فی راحتیںموجود ہیں ۔ اس سے قبل کہ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ نافذ ہوتا ‘ شنڈے سرکار نے ایک دوماہ کےوقفے میں یکے بعد دیگرے ڈھیر سارے مقبولِ عام اعلانات کردئے کہ منتخب ہونے کی صورت میں عوام کی خدمت کے لئے یہ یہ کیا جائےگا۔ بالفاظ دیگر لوگوں کو وعدے وعیدوں کے سپنے خوب
د کھائے گئے۔ان خوابوں کو کماحقہ پورا کرنااب نئی مہاراشٹر سرکار کی پہلی ترجیح ہونا طے ہے۔ توقع یہی ہے کہ ان اعلانات کو زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ انہیں عملایا بھی جائے گا۔ ان سے عام آدمی کا کچھ نہ کچھ بھلا ہوگا اورغٖربت ‘ مہنگائی ‘ بے روز گاری‘ بیماری اور سماجی نابرابری کے چنگل میں پھنسے اس کی پریشانیاں کاملاً نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ کم ضرور ہوں گی ‘ اس کی روز مرہ مشکلات کا تھوڑا بہت ازالہ ہوگا۔ اعلان شدہ اسکیموں میں غریب خواتین کے بنک کھاتوںمیں مدھیہ پردیش ٹائپ لاڈلی بہنا نام سے ماہانہ مالی امداد جمع کرانا ‘ غرباا ور عمر رسیدہ افراد کے لئے سماجی تحفظ اسکیم کی رقم بڑھانا اور انہی جیسےکئی عوام دوست و عدوں نے ووٹروں کو تھوک کے بھاؤ بھاجپا کی طرف کھینچ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مہایگتی کی انتخابی کاوشیں ثمر بار ہوئیں ۔ اگرچہ ریاستی سرکار پر اپوزیشن بے روزگاروں کی معاشی تقدیر بدلنے والےکئی پروجیکٹوں کو مہاراشٹر سے گجرات منتقل کر نے کا الزام لگا تی رہی ‘ ان پروجیکٹوں کی منتقلی سے مہاراشٹر کو ہوئے مالی نقصانات کے اعداد وشمار بھی پیش کئے مگر یہ سبھی تنقیدیں صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔ حکومت کی طرح طرح کی مراعاتی اورسہولیاتی اسکیموں سے متاثرہوکر برسراقتدار مہایگتی کے حق میں رائے عامہ معجزاتی طور ہموارہو نی تھی سوہوگئی اور آگے یہ معاملہ پولنگ بوتھوں پر بھاجپا کے حق میں دھڑا دھڑ ووٹ ڈالے جانے پر منتج ہو ا۔ اس کے برخلاف اپوزیشن کے ترکش میں کوئی ایسا تیر تھا ہی نہیں جو لوگوں کو مہا وکاس اگھاڑی کی طرف دل کی آمادگی اور من کی خوشی کے ساتھ راغب کر نے کی کرامت دکھاتا۔ اگھاڑی صرف بھاشنوں پر انحصار کرتی رہی یا زیادہ سے زیادہ اگلا چیف منسٹر کون ہوگا ‘ جیسی بےوقت کی راگنی میں مصروفِ عمل رہی۔ ایسے میں جب الیکشن رزلٹ نے ان کے پیروں تلے زمین کھسکا دی تو آٹے دال کے بھاؤ معلوم ہوئے۔ سیاسی تقدیروں کے اُلٹ پھیر کی بے رحم گردش دیکھئے کہ الیکشن نتائج سے آج کی تاریخ میں مہاراشٹر میں شردپوار جیسے بلند قامت اور تجربہ کار قائد سیاسی طورایک قصۂ پارینہ ہوچکے ہیں‘ اودھو ٹھاکرے ایک پُر وجاہت سیاسی خانوادے کے پٹےہوئےمہرے بنےپھرتے ہیں‘ کانگریس سیاسی ساکھ اورمعنویت کھو ئی ہوئی ایک پرانی جماعت دکھتی ہے۔ ان نیتاؤںکے مقابلے میں سابق وزیراعلیٰ ایک ناتھ شنڈے شو سینا کےاور اجیت پوار این سی پی کے اصل والی وارث ہونے کے دعوؤں میں کھرے اُتر ے ہیں۔ المختصر انڈیا بلاک کے مستقبل ا ور خود راہل گاندھی کی اُمیدوں کو مہاراشٹر نے بڑی حد تک دھچکہ دیا۔
بھاجپا نے شو سینا اور این سی پی کو کئی سال پہلے دو پھاڑ کر کے آپریشن کنول کا جوآزمودہ فارمولہ مہاراشٹر میں دہرا یا اورمہاوکاس اگھاڑی کو تخت وتاج سے بے دخل کیا ‘ اس آپریشن کو تاریخ جس کسی نظر سے بھی دیکھتی ہو وہ اپنی جگہ‘ مگر عام آدمی نےمہایگتی کو تازہ انتخابات میں اپنی گرم جوشانہ تائید و حمایت دے کر آپریشن کنول پرقبول ہے قبول ہے قبول ہے کی مہر لگادی ہے ۔
یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ مہاراشٹر کےالیکشن میں غیبی ہاتھوں کی کوششوں کے باجود کسی فرقہ وارانہ فساد و عناد کی کوئی غلیظ ہوا کہیں پر بھی نہ چلی۔ الیکشن پُرامن اور شانت ماحول میں ہوئے او’’ بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ جیسے نعرے کی گونج یہاں کہیں بھی نہ سنائی دی۔’ ’ایک ہیں تو سیف ہیں‘‘ کے نعرے کے حوالے سے راہل گاندھی نے ایک پریس کانفرنس ضرور کی ۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے ایک سیف
کھو ل کر اس کے اندر سے مشہور صنعت کار اور کاروباری شخصیت مسٹر اڈانی کی مودی جی کے ساتھ مشترکہ تصویر اور ایشیا کے سب سے بڑے جگی جھونپڑی والے علاقے داراوی کا فضائی فوٹو نکال کر میڈیا کو دکھایا اوربس س۔ یہ تماشہ بھی کچھ زیادہ نہ جما کیونکہ ووٹ کر نے میں لوگ مودی جی اور اُن کے اتحا دیوں کو کسی صورت بھولنے پر تیار نہ ہوئے ۔ الیکشن نتائج اسی حقیقت کی منہ بولتی تصویر پیش کر تے ہیں۔
مہاراشٹر کے انتخابی کشمکش کا ایک اہم پہلو یہ بھی رہا کہ عالمی شہرت یافتہ داعی‘ مصلح ومخلص ومستند بزرگ اسکالر اور جید عالم ِ دین مولانا سجاد نعمانی صاحب کنونیئر آل انڈیا ایکتا فورم نے مہاراشٹر الیکشن میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لی۔ ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ ریاست میں مسلمان کل آبادی کا بارہ فی صد ہیں اور کئی ایک انتخابی حلقے مسلم اکثریتی علاقے تصور کئے جاتےہیں ۔ چنانچہ مولانا معاشرے کے ممتاز افراد سے ایک ماہ تک ریاستی الیکشن کے موضوع پرطویل تبادلہ ٔ خیال کر نے کے بعدممبئی تشریف فرماہوئے اور یہاں الیکشن معر کے میں قسمت آزمائی کر نے والے اپنے حمایت یافتہ ۱۶۹ ؍اُمیدواروں کی ایک لمبی فہر ست پریس کے سامنے جاری کردی ۔ قبل ازیں انہوں نےاپنے معتمدین کے ذریعےان اُمیدواروں کی باریک بینی سے چھان پھٹک کر واکے اور ان کے حالات وکوائف جاننے کے بعدہی انہیں اپنی حمایت دینے کا اعلان کیا ۔ مولانا کے ہم خیال دیگر سماجی قائدین اورپریشر گروپوں بھی ان کنڈیٹوں کی بر سر موقع تائیدوحمایت میں پیش پیش تھے۔ لسٹ میں زیادہ تر غیر مسلم بھائی شامل تھے ‘ ایک قلیل تعدادمیں مسلم اُمیدوار بھی اس میں جگہ پاگئے تھے۔ چونکہ مذکورہ اُمیدواروں کی غالب اکثریت مہا وکاس اگھاڑی کی ٹکٹ پرالیکشن لڑنےوالوں پرمشتمل تھی‘ اس لئے مولانا کے تائید شدہ لسٹ کو یار لوگوں نے فٹا فٹ ایم وی اے کا حامی جتلاکر مولانا صاحب کو اگھاڑی کا پرچارک قرار دینے میں کوئی تاخیر نہ کی۔ حق یہ ہے کہ مولانا کی بھاجپا کے ساتھ کوئی ذاتی پُر خاش نہیں بلکہ وہ اس سنگٹھن کی بعض پالیسیوں نقاداور اس کے سیاسی ایجنڈے میں شامل کئی پرگراموںسے علانیہ طورنالاں ہیں اور ایک سیاسی تبدیلی کے خواستگوار ہیں ۔ وہ اپنی دینی مجالس میں اور بیانات و مواعظہِ حسنہ میں برملا اس بات کا بلا کم وکاست اظہار بھی صاف لفظوں میں کرتے پھرتے ہیں۔ بایں ہمہ مولانا تنقید سے بالاتر نہیں‘ البتہ اُن کی ذات کو کسی ایک مخصوص سیاسی د ھارےسے نتھی نہیںکیاجاسکتا‘وہ انسانوں کے درمیان ہرطرح کے بھید بھاؤاورمنافرت ومغائرت سے باغی ہیں ‘ ہرنوع کے مذہبی ‘گروہی‘ لسانی‘ ثقافتی تقسیم سے بالاتر ہوکر قومی مفاد ‘ ملکی وحدت‘ وطنی سالمیت ‘ انسانی اُخوت اور اخلاقی حرمت کی برتری کے لئے قولاًوعملاً کوشاںنظر آتےہیں ۔ جمہوری انتخابات کو وہ انہی اعلیٰ آدرشوں اور اونچے وچاروںکی تکمیل کا ایک موثر سیاسی وسیلہ سمجھتے ہیں ۔اُن کی تائیدیافتہ فہرست میں شامل اُمیدواروں کوووٹروں میں کتنی پذیرائی ملی یا انتخابات کے حوالے سے اُن کی فہمائشوں کا اپنے حلقۂ اثر میں کتنا اثر مرتب ہو ا ‘ اس بارےمیں فی الحال وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ اسدالدین اویسی صاحب کی پارٹی مسلم مجلس اتحادالمسلمین کے کئی ایک حامیوں اور دوسرے ناقدین نے مولانا کی فہرست کے ساتھ تیکھا اختلاف ظاہرکر کےاُن کے بارے میں بہت ساری دریدہ دہنی کی ۔ خود ممبر پارلیمنٹ اویسی صاحب نے اپنےوزن ‘وقار اور متانت کو برقرار رکھتے ہوئے مولانا کے تئیں اپنی حُسنِ عقیدت کےاظہار میں کشادہ دلی دکھائی ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مولاناکا اپنے سامعین اور حامیوں سے یہ کہنا کہ وہ الیکشن میں اپنا بھر پور حصہ ڈالیں‘ اس گفتنی پر ایک بڑی قد وقامت والے مخالف نیتا نے فوراً سے پیش تر اسے ’’ووٹ جہاد ‘‘کانام دیا اوربلواسطہ مولانا کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا ۔ واضح رہے بھاجپا نے کسی ایک بھی مسلم اُمیدوار کو ٹکٹ نہ دیا تھا ۔ بہر کیف جن مسلم اُمیدواروں نے اسمبلی میں نشست پانے میں کامیابی حاصل کی‘ اُن میں ایم ایم ایم کے مفتی اسماعیل (مالیگاؤں )اور مقتول بابا صدیقی کے بیٹےذیشان صدیقی ( مشرقی باندرہ) خاص طور پر شامل ہیں ۔ ایک زمانے میں شردپوار کے دست راست کہلانے والے اوراب اجیت پوار کیمپ سے تعلق رکھنے والے نواب ملک کی ضمانت تک ضبط ہوئی ‘ جب کہ این سی پی ( اجیت گروپ ) سے وابستہ سابق وزیر مشرف حسن کے حصےمیں جیت آئی۔ شوسینا( شنڈے) کے واحد مسلم اُمیدوار عبدالستاراورنگ آباد سے اپنی نشست جیت گئے۔ کئی برس سے مہاراشٹراسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی بتدریج کم ہوتی چلی آرہی ہے ۔ اس تلخ حقیقت کے سیاسی مضمرات کا تجزیہ کرتے ہوئے‘ مولانا نعمانی صاحب کو چاہیے کہ اولین فرصت میں اپنے حمایت یافتہ اُمیدواروں کو کم ازکم یہ باور کرائیں کہ اپنی شکست کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کریں‘ ہار کے اسباب ومحرکات کا حقیقت پسندانہ احتسابی جائزہ لیں نہ کہ ناکامی کا ٹھیکرا ای وی ایم کی اعتباریت پر پھوڑدیں‘ مہا وکاس اگھاڑی کی بھی فہمائش کریں کہ اپنی مایوس کن کارکردگی کی وجوہات پر مباحثے کے بجائے الیکٹرانک ووٹنگ کی جگہ پیپر ووٹنگ کی واپسی پر اپنی سیاسی توانیاں خرچ نہ کر ے ‘ مہایگتی کی جیت کو محض کوئی چھل یا صرف روپے پیسے کے بے دریغ بہاؤ کا شاخسانہ سمجھنے کی بھول نہ کرے‘ بلا کسی ٹھوس ثبوت وشواہد کےسرکاری مشنری کے ناجائز استعمال جیسے الزامات کی ٹامک ٹوئیوں سے پرہیز کرے وغیرہ وغیرہ ‘ یہ دیکھنے سمجھنے کی کوشش کرے کہ مہنگائی‘ بے روزگاری اور سماجی عدم مساوات کے بے قابو جن کو کنٹرول نہ کرنے کے باوجود آخر مودی جی ہی ووٹروں کی پہلی پسند کیوں؟رائے دہندگان کے دل ودماغ پر مسلسل وہ کیونکر راج تاج کرتے ہیں‘حکومت کے اُن فلاحی پروگراموں اور بہبودی اسکیموں پر بھی غور وتدبر کیاجائے جن کی بدولت عوام الناس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مودی کی قیادت پر اعتماد کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ ہماری جمہوریت کا یہی حُسنِ کرشمہ ساز ہے کہ یہ ایک شہری کو کنوئیں کا مینڈک بناکر نہیں چھوڑتا بلکہ اس کے سامنے فکر وعمل کے نئے اُفق پھیلانے اور سوچنے سمجھنے کی تمام نئی شاہراہیں کھولتا ہے ۔ مہاراشٹرکے حزب اختلاف کو انہی شاہراؤں کو مزید فعالیت کے ساتھ اپنے سیاسی سفر کے لئے اختیار کرنے ہوںگے۔