کشمیر اسمبلی ۔۔۔۔مضبوط حکومت کمزور اپوزیشن – Chattan Daily Newspaper:Valley Vision
از:ڈاکٹر جی ایم بٹ
قانون ساز اسمبلی کا باضابطہ سیشن شروع ہونے سے پہلے این سی کانگریس کا اہم اجلاس ہوا جس میں اسمبلی کی کاروائی آگے بڑھانے کے لئے مشترکہ طریقہ کار طے کیا گیا ۔ اس سے پہلے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے دہلی جاکر وزیرداخلہ اور وزیر اعظم سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کے بعد واپسی پر وزیراعلیٰ نے خوش گمانی کا اظہار کیا اور بتایا کہ مرکز کی طرف سے تعاون ملنے کی امید ہے ۔ان کی اس دوڑ دھوپ سے یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ ان کی دوری فی الحال ختم ہوگئی ہے ۔ دونوں کا یارانہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ عمر عبداللہ نے بھی اس تعلق کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ۔ بلکہ سب کچھ کھلے عام کہہ دیا ۔ کانگریس کے ساتھ گٹھ جوڑ کے باوجود انہوں نے بی جے پی کے ساتھ تال میل بنانے کی بات سر عام کہہ دی ۔اس میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھا گیا ۔اس تگ و دو سے اندازہ لگایا جارہاہے کہ بڑے مدعوں پر تینوں بڑی جماعتوں کی ایک ہی رائے ہوگی۔ اس طرح کی صورتحال کے بعد اسمبلی میں اپوزیشن میں پی ڈی پی کے تین ممبران کے علاوہ لنگیٹ سے شیخ خورشید اور ہندوارہ سے سجاد لون باقی بچ جاتے ہیں ۔ ان پانچ ممبران میں سے چار پہلی بار اسمبلی میں داخل ہورہے ہیں ۔ جبکہ سجاد لون سینئر ممبر ہونے کے باوجود خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں ۔ لون کے لئے یہ طے کرنا بڑا مشکل ہے کہ وہ کس طرح کاکردار نبھائیں گے ۔ دیکھا جائے تو اصل میں لون کو ہی اپوزیشن لیڈر کے طور سامنے آنا چاہئے تھا۔ ان کے والد مرحوم غنی لون اسمبلی میں اکیلے پوری اسمبلی کو کھدیڑ کر رکھ دیتے تھے ۔ اسی طرح ترال کے ایم ایل اے رفیق نائیک کے والد مرحوم علی محمد نائیک پوری اسمبلی کے اندر تنہا ساری اپوزیشن کا بھار اٹھاتے اور بڑی مہارت سے اپنا رول نبھاتے تھے ۔اپنی اس کارکردگی کی وجہ سے ہی دونوں لون اور نائیک کشمیر کی سیاسی تاریخ میں نمایاں حیثیت کے مالک بن گئے ۔ ان کی اولادکیا واقعی اس خلا کو پر کرسکیں گے جو ان کے والدین کے مرنے سے پیدا ہوا کہنا مشکل ہے ۔ سجاد لون کی پارٹی سے دو تین اور ممبران اسمبلی میں ہوتے تو ان کو سنبھالنا حکومت کے لئے بڑا مشکل ہوتا ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ عمر عبداللہ کی حمایت میں ایک بڑا جتھہ موجود ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں دہلی کی حکومت اور اپوزیشن دونوں کی حمایت حاصل ہے ۔ جبکہ اپوزیشن خالی ہاتھ ہے اور اس کے لئے کوئی سہارا نظر نہیں آتا ہے ۔ دفعہ 370 مدعا واقعی ایک اہم ایشو ہے جس کو لے کر اپوزیشن اسمبلی میں شور شرابا کرسکتی ہے ۔ بلکہ پہلے ہی روز اس حوالے سے پی ڈی پی کے وحید پرہ نے ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ۔ یہ ایک ناکام کوشش ہے جس کا انجام ہر کسی کو معلوم ہے ۔ وزیراعلیٰ نے اس پر جو ریمارکس پاس کئے واقعی بڑے سخت اور ترش الفاظ ہیں ۔ لیکن حق یہ ہے کہ حکومت کے پاس اس مسئلے پر اس سے زیادہ میٹھے الفاظ کہنے کو نہیں ہیں ۔ ایسے میں عوام بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ابھی دفعہ 370 کاکارڈ کھیلنا قبل از وقت ہے ۔ سوشل میڈیا پر کچھ حلقے وحید پرہ کے لئے تالیاں تو بجاتے ہیں اور اس پر واہ واہ کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت پسند حلقے اسے سیاسی بیانیہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔ ایک سہ رکنی پارٹی یا پانچ عدد اسمبلی ممبران اتنے بڑے ایشو کواٹھائیں پھر اس کا حشر کیا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ۔
موجودہ اسمبلی سے کسی بڑے اپ سیٹ کی توقع کرنا صحیح نہیں ہے ۔ کوئی بھی پیش رفت مرکزی حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔ کشمیر کا سارا سسٹم اب بھی مرکزی سرکار کے تابع ہے ۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہی رہاہے ۔ یوٹی بننے سے پہلے بھی اصل حکومت دہلی سے چلائی جاتی تھی ۔ کانگریس کے دور میں بھی تمام بڑے فیصلے دہلی میں بیٹھ کر لئے جاتے تھے ۔ یہ ایک حساس علاقہ ہے جہاں معمولی نوعیت کے واقعات بھی پورے حالات کو اثر انداز کردیتے ہیں ۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے جو گن گرج کا ماحول بنایا جارہاہے اس میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا ۔ طفلان سیاست کے لئے یہ سب کچھ سمجھنا مشکل ہے ۔ ابھی تو پائوں ٹکانے کی ضرورت ہے تاکہ بنیادی ڈھانچے کو کشمری عوام کے ساتھ رابطہ بنانے پر مجبور کیا جاسکے ۔ عوامی مسائل کی کنجی بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہے ۔ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جن کو حل کرانے کی امید موجودہ سرکار سے لگائی گئی ہے ۔ ایسے مسائل حل نہ ہوئے تو لوگ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی مجرم ٹھہرائیں گے ۔ یہ بات اپنی جگہ کتنی اہم ہی کیوں نہ ہو کہ اصل مسئلہ لوگوں کو ان سے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے ۔ یہ بڑے بڑوں کی باتیں ہیں ۔ عام لوگ اپنے روز مرہ کے مسائل کے حوالے سے خود غرض ہوتے ہیں ۔یہ تو دفعہ 370 ہٹانے کے لئے بی جے پی کے ساتھ علاحدگی پسندوں کو بھی مجرم مانتے ہیں ۔ یہ جب تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں تو رازدارانہ انداز میں ایک دوسرے سے یہی کہتے ہیں کہ علاحدگی پسندی کا نتیجہ ہے کہ ہم آج بے بس اور لاچار ہیں ۔ ایسے میں اپوزیشن چھوٹے چھوٹے رول نبھانے کے بجائے بڑا ہیرو بننے کی کوشش کرے تو عوام کے اندر یہ ولن کا روپ اختیار کرے گی ۔
Source link
ویلی ویژن