Blogs & Articles

کشمیر: نوجوان، ٹریفک اور المیہ

احمد جنید

کشمیر کی سڑکوں پر نوجوانوں کی بے احتیاطی اور تیز رفتار گاڑیوں کے استعمال نے کئی خاندانوں کو غم و غصے کا سامنا کرایا ہے۔ حالیہ برسوں میں مختلف حادثات میں نوجوانوں کی زندگیوں کے ضیاع نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ 14 نومبر 2024 کو سری نگر کے مضافاتی علاقے میں ایک ہولناک حادثہ پیش آیا جس میں دو نوجوانوں کی جانیں چلی گئیں۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب تین نابالغ لڑکے ایک تیز رفتار تھار میں سوار تھے اور بے احتیاطی سے ایک تیز رفتار گاڑی کو اوور ٹیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ حادثے میں دونوں لڑکوں کی موت واقع ہوئی۔ اس واقعے نے پورے کشمیر میں ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی اور نوجوانوں کے غیر قانونی ڈرائیونگ کے حوالے سے شدید بحث کو جنم دیا۔کشمیر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی ایک بڑی وجہ نوجوانوں کا غیر قانونی طور پر گاڑیاں چلانا ہے۔ نابالغوں کے لیے ڈرائیونگ کرنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اس سے ان کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ایسے حادثات نے نہ صرف والدین کی زندگیوں کو اجیرن بنایا ہے بلکہ پورے معاشرے کو بھی اس مسئلے کے حل کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت پر مجبور کیا ہے۔ٹریفک پولیس نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں جن میں نابالغوں کی ڈرائیونگ کے خلاف سخت کارروائی اور گاڑیوں کی ضبطی شامل ہے۔ سری نگر میں اس وقت ہزاروں گاڑیاں ضبط کی جا چکی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو غیر قانونی طور پر گاڑی چلانے سے روکے۔ اس کے باوجود، یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا دکھائی دیتا ہے۔ والدین اکثر اپنے بچوں کی جسمانی نشوونما کو ان کی ذہنی پختگی سمجھ کر ان کو ڈرائیونگ کی اجازت دے دیتے ہیں، حالانکہ بچوں کی ذہنی پختگی اور ذمہ داری کا احساس ابھی پوری طرح سے نہیں ہوتا۔کشمیر میں ٹریفک کے حادثات اور ان میں ہونے والی اموات کا ایک اور پہلو نوجوانوں کا سڑکوں پر بلا سوچے سمجھے ڈرائیو کرنا ہے۔ ایسے حادثات میں اکثر نوجوانوں کی موتیں ایک المیہ بن کر رہ جاتی ہیں اور ان کے پیچھے چھوڑ جانے والے والدین کے دلوں میں شدید دکھ و درد ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر 2021 میں شیذان اور اس کے دوست عارِض کا حادثہ بہت مشہور ہوا۔ دونوں نوجوان سڑک پر ایک سٹنٹ کر رہے تھے جب اچانک ایک ٹرک بے قابو ہو کر ان کے سامنے آ گیا اور دونوں کی جان لے لی۔ اس حادثے کے بعد شیذان کی بہن بیسریٹ کا کہنا تھا کہ “ہمیں شیذان کا چہرہ پہچاننے میں بھی مشکل پیش آئی، وہ ایسا چہرہ تھا جو ہمیشہ مسکراتا ہوا دیکھنے کو ملتا تھا۔”یادگار حادثات جیسے یہ افسوسناک حالات نہ صرف اس وقت متاثرہ خاندانوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ پورے معاشرتی نظام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ تاہم، ان حادثات نے حکومت اور انتظامیہ کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ ٹریفک پولیس نے نابالغوں کی غیر قانونی ڈرائیونگ کے خلاف سخت کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور اسکولوں و کوچنگ سینٹرز کو بھی اس سلسلے میں ہدایات جاری کی ہیں۔نابالغوں کے لیے ڈرائیونگ کی اجازت نہ دینے کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے، پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ان کے جسمانی نشوونما اور ذہنی پختگی میں فرق ہوتا ہے۔ نوجوانوں کی جسمانی طاقت بڑھ سکتی ہے لیکن ان کا دماغی اور جذباتی طور پر تیار ہونا وقت کی بات ہے۔ اسی لیے نوجوانوں کو گاڑیاں چلانے کی اجازت دینا ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سری نگر کے شہریوں کی شکایات بھی بڑھ رہی ہیں کہ شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کے مسئلے اور شدید ہجوم کی وجہ سے عوامی نقل و حمل کے وسائل ناکافی ہیں۔ اس کی ایک مثال ایک ماں کی شکایت ہے جس کا کہنا تھا کہ “میرا بیٹا اسکول کے بعد ٹیوشن سینٹر سے واپس آتا ہے، لیکن وہاں کوئی بس نہیں آتی، نہ ہی سرخ بس نہ ہی گری بس، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟” یہ مسئلہ نہ صرف والدین کے لیے بلکہ نوجوانوں کے لیے بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔اس صورتحال میں حکومت کو نوجوانوں کی ڈرائیونگ کی عمر کو کم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ بعض والدین کا خیال ہے کہ 16 سال کی عمر میں بچوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دی جانی چاہیے تاکہ وہ ٹیسٹ کے ذریعے ذمہ دار ڈرائیور بن سکیں۔ اس حوالے سے یاسین احمد کا کہنا تھا کہ “اگر انہیں لائسنس دے کر ٹیسٹ کروائے جائیں تو وہ زیادہ ذمہ داری سے گاڑی چلائیں گے۔”ٹریفک پولیس اور مقامی انتظامیہ نے اس پر ایک واضح حکمت عملی اپنائی ہے جس میں نہ صرف سختی سے قوانین کا نفاذ شامل ہے بلکہ عوامی سطح پر آگاہی پھیلانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ٹریفک پولیس نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر افراد کو پٹرول پمپوں سے فیول نہیں دیا جائے گا، تاکہ وہ گاڑیاں چلانے سے بچ سکیں۔کشمیر کے سڑکوں پر ہونے والے حادثات اور ان میں نوجوانوں کی ملوثیت کے حوالے سے حکام نے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق 2024 میں کشمیر میں اب تک 4990 حادثات رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں 703 افراد کی موت واقع ہوئی ہے اور 6820 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سری نگر میں 2023 میں 476 حادثات رپورٹ ہوئے تھے جن میں 55 افراد کی موت ہوئی تھی اور 493 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس سال 394 حادثات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں 50 افراد کی موت ہوئی ہے اور 411 افراد زخمی ہوئے ہیں۔سری نگر میں ٹریفک کے مسئلے کا حل صرف سڑکوں کی بہتری یا گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنے سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے، والدین کی ذمہ داری کو تسلیم کرنے اور حکومت کی طرف سے سخت قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان محفوظ رہیں اور ٹریفک کے حادثات میں کمی آئے تو ہمیں ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ، حکومت کو بھی نوجوانوں کی ڈرائیونگ کے حوالے سے اپنے قوانین میں تبدیلیاں لانے اور بہتر عوامی نقل و حمل کی سہولتیں فراہم کرنے پر غور کرنا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو سڑکوں پر بے احتیاطی سے ڈرائیونگ سے روکا جا سکے۔کشمیر میں نوجوانوں کی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے جس کے اثرات نہ صرف نوجوانوں بلکہ پورے معاشرتی نظام پر پڑ رہے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت اور ٹریفک پولیس کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے باوجود، یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ صرف سخت قوانین کے نفاذ سے حل ہو سکے۔ ٹریفک حادثات میں نوجوانوں کی ملوثیت کا ایک بنیادی سبب ان کی ذہنی پختگی کی کمی ہے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کی جسمانی نشوونما کو دیکھتے ہیں اور انہیں گاڑی چلانے کی اجازت دے دیتے ہیں، حالانکہ یہ حقیقت میں ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے گاڑی چلانے کی اجازت دینا صرف ان کی آزادی میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ یہ ان کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔نوجوانوں کی ٹریفک کے حادثات میں ملوثیت کو روکنے کے لیے نہ صرف قانون کا نفاذ ضروری ہے بلکہ والدین اور تعلیمی اداروں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا شعور ہونا چاہیے۔ اسکولوں اور کوچنگ سینٹرز میں بھی اس بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ بچے اور ان کے والدین دونوں اس بات کو سمجھیں کہ ٹریفک قوانین کی پابندی ان کی زندگیوں کے لیے کتنی اہم ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت کو نوجوانوں کے لیے مناسب عوامی نقل و حمل کی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ بغیر کسی خطرے کے اپنے اسکول اور دیگر مقامات تک پہنچ سکیں۔موجودہ صورتحال میں، شہر میں بڑھتی ہوئی ٹریفک اور حادثات کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، شہریوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نہ چھوڑیں، بلکہ اس میں فعال طور پر حصہ لیں۔ ٹریفک کے حوالے سے معاشرتی ذمہ داری کا شعور بڑھانا انتہائی ضروری ہے تاکہ ہم سب مل کر اس مسئلے کو حل کر سکیں۔ والدین، تعلیمی ادارے، حکومت، اور شہریوں کو ایک مشترکہ کوشش کے طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ صرف اس صورت میں ہم نوجوانوں کو ٹریفک حادثات سے محفوظ رکھ سکیں گے اور ایک محفوظ سڑک کا ماحول فراہم کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ، نوجوانوں کو سڑکوں پر بہتر سلوک کے بارے میں تربیت دینا، ان کے لیے ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا اور ٹریفک قوانین کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا نہایت اہم ہے تاکہ یہ نسل آنے والے وقت میں سڑکوں پر محفوظ طریقے سے سفر کر سکے۔

Show More

Online Editor "Valley Vision"

Valley Vision News is your trusted source for authentic and unbiased news from the heart of Kashmir and beyond. We cover breaking news, culture, politics, and stories that matter, connecting local voices to global perspectives. Stay informed with us! "Empower your vision with truth, for every story has the power to change the world."

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button