ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام
بلال احمد پرے
وادیٔ کشمیر کو پیروأری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ یہ وادی اعلٰی پایہ کے ریشیوں، اولیاءِ کاملین، علماء و صلحاء اور برگزیدہ بزرگوں کی وادی ہے ۔ اولیاء کرام کی اس سرِ زمین کو دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان ہے ۔ کشمیر میں موجود سینکڑوں بلند پایہ اولیاء کرام کی خانقاہیں، درگاہیں و عبادت گاہیں اقوام عالم میں کشمیریوں کے عقیدے کی عکاسی کرتی آئی ہیں ۔
ان ہی اولیاء کرام میں حضرت شیخ نور الدین نورانیؒ ہے جنہیں وادئ کشمیر کے لوگ عموماً “علمدارِ کشمیر” (Flag Bearer of Kashmir) یا ” شیخ العالم ” (The Religious Scholar) جب کہ کشمیری پنڈت برادری خصوصی طور پر ” نند ریشی ” (The Beautiful Rishi) یعنی خوبصورت ریشی کے لقب سے ہمیشہ یاد کرتے آۓ ہیں ۔
حضرت شیخ نور الدین نورانیؒ اپنے زمانے کے مشہور و معروف صوفی بزرگ تھے ۔ آپ ؒ صوفی سلسلہ ریشیت کے بانی ہے ۔ تواریخ کے مطابق شیخ العالمؒ کا دور اس وقت تھا، جب وادئ کشمیر میں سُلطان زین العابدین یعنی بڈشاہ کی حکومت تھی ۔
آپؒ کا کلام عارفانہ، مبلغانہ، واعظانہ ہونے کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس، توحید و رسالت پر مبنی حقیقت نگاری کا آئینہ دار ہے ۔ ان کے کلام میں قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث مبارکہ کا کشمیری تفسیری درس موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام کو آج بھی لوگ کأشر قرآن کے نام سے پکارتے ہیں ۔ شیخ العالمؒ اپنے کلام میں اس واضح حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ رب الزوجلال یکتا و واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، فرماتے ہیں ۔
*اول الف کُنے اللہ*
*اَولہ پتہ اخیر َزوال نہ تَس*
آپؒ کا کلام قرآن و سُنت کا ماحصل، نچوڑ اور خمیر ہے ۔ اسی طرح فرماتے ہیں کہ
*سے اوس تہ سے ہو آسی*
*سے سے کرے زی ییتہ*
صدیاں گزرنے کے بعد بھی لوگ آپؒ کا کلام روحانی محفلوں، مسجدوں، تعلیمی اداروں اور دیگر روح پرور مجلسوں میں بڑی عقیدت کے ساتھ پڑھتے اور اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں ۔ آپؒ فرماتے ہیں :
*لا الہ الا اللہ صحی کورُم*
*وحی کورُم پنُنے پان*
*وجود ترآوتھ موجود میولم*
*ہر موکھ وچھم پنُنے پان*
آپؒ نے وادی کے طول و ارض میں صحراؤں، بیابانوں، کوہساروں اور سبزہ زاروں میں اپنی داعیانہ دین کی خدمات انجام دی ہیں ۔ جس کے لیے آپ ؒ نے بے شمار دیہات کا رُخ کیا ۔ تاکہ یہاں کے لوگوں کو سادہ لفظوں، مقامی کشمیری زبان میں دینِ اسلام کی تعلیمات سے روشناس کر کے ایمان کی حلاوت سے ہمکنار کیا جائے ۔
دینِ اسلام کے اِسی مشن اور نظریہ کی آبیاری کرنے کے غرض سے آپ ؒ نے ضلع پلوامہ کے قصبہ اونتی پورہ کے موضع ہاری پاری گام کا بھی انتخاب فرمایا ۔ یہاں علمدار کشمیر ؒ نے موجودہ بستی سے تقریباً چار سو میٹر کی دوری پر جنوب مشرقی ڈھلوان دار زمین کے ایک ٹکڑے کو اپنی عبادت کے لئے منتخب فرمایا ۔ آپؒ یہاں ایک مختصر وقت کے لئے تشریف آور ہو چکے ہیں ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ آپؒ کا سسرال موضع ہاری پاری گام سے تقریباً 5 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے ۔
آپؒ جہاں اس موضع میں تشریف آور ہوئے، وہاں کے مقام پر اس وقت آستان عالیہ موجود ہے ۔ جس سے پچھلے کئی دہائیوں سے تقریباً ۳ دفعہ تعمیر کیا گیا ہے ۔ موجودہ زیارت گاہ کا احاطہ تقریباً 2 کنال سے زیادہ اراضی پر مشتمل ہے ۔ یہ ۳۰۰ سالہ قدیم آستان عالیہ اپنی پرانی تعمیر لیکن جدید رنگ و روغن سے زینت کی ہوئی ہے ۔ اور بجلی سپلائی کی سہولت سے لیس ہے ۔ اس احاطہ کے اندر ایک غار (گُھپا) بھی موجود ہے ۔ جس میں روایات کے مطابق آپؒ تنہائی میں اللہ تعالٰی کی عبادت کیا کرتے تھے اور اسی کے اندر اپنی رہائش بھی فرماتے تھے ۔ یہ آستان تقریباً عمومی طور پر اخروٹ کی لکڑی کا تعمیر کردہ ایک منزل پر مشتمل ہے جو تقریباً 12×12 مکعب اسکیر فٹ کی ہوگی ۔ آستان کی چھت ٹین پوش کی ہے ۔ جس کے اوپر قبا لگا ہوا ہے اور لکڑی اس وقت کی ڈیزائن کی ہوئی ہے ۔ اندر جانے کے لئے شمال کی طرف ایک دروازہ ہے جب کہ مرکزی مقام کی زیارت کے لئے دوسرا دروازہ برلب مشرق ہے ۔ آستان عالیہ میں تقریباً ۳۰ افراد کے نماز ادا کرنے کی جگہ موجود ہے ۔ باہر کی دیواریں لکڑی کی ہے اور چاروں طرف سے پتلی جالی سے سجائی گئی ہے ۔ جب کہ مرکزی صحن کی دیواریں پختہ رنگ و روغن سے سجائی گئی ہے ۔ صحن میں ایک بڑی پتھر جو تقریباً آٹھ فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی موجود ہے ۔ اس کے متعلق یہی مشہور قول ملتا ہے کہ آپ ؒ نے اس پتھر پر نماز ادا کیں تھی ۔ جس سے اس وقت چاروں طرف ایلومینیم مع شیشے کے اندر محفوظ رکھا گیا ہے ۔
تاریخی حقائق کے مطابق آپ ؒ 800 ہجری یعنی چودھویں صدی کے آس پاس ہاری پاری گام کی اس چھوٹی سی بستی میں اس وقت کے لوگوں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے غرض سے تشریف فرما ہوئے ۔ لوگوں کی اصلاح کرنے اور انہیں دینِ اسلام سے روشناس کرنے کے بعد آپؒ نے اس بستی کو خیر باد کہہ دیا اور دین کی حفاظت، اشاعت اور اقامت کی کوشش کرتے ہوئے دوسرے علاقوں کی جانب اپنا رُخ کر دیا ۔ جو آپؒ کا اصل مقصد تھا ۔
دورانِ قیام، آپؒ سے یہاں دو بڑی کرامات کا ظہور ہوا ہیں ۔ جن میں اول الذکر قدیم شہتوت کا درخت اور دوم صاف و شفاف اور زائقہ دار پانی کا بہتا ہوا چشمہ ہے ۔ یہ دونوں کرامات عقیدت مندوں کے لئے آج کی تاریخ میں بھی آستان عالیہ کے دوسری جانب مشرقی طرف وہاں موجود ہیں ۔ جس کا احاطہ تقریباً 10 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے ۔ اور مقامی بستی نے اسی اراضی کے ایک چھوٹے سے حصّے کو عیدگاہ بنایا ہیں ۔ مانا جاتا ہے کہ شیخ العالمؒ اسی چشمے کا پانی اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال فرمایا کرتے تھے ۔ اور بستی کے لوگ بھی اس چشمہ کے پانی کو کئیں دہائیوں سے نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ استعمال کرتے آئے ہیں ۔ اور آج کی تاریخ میں اس چشمہ (8×10) کو جموں و کشمیر انتظامیہ نے محفوظ بنانے کے لئے ہر طرف پتھر کی دیواریں بنائی ہے اور مقامی بستی نے اس کی چھت کو باڑ (Fencing) سے پانی کو محفوظ بنایا ہے ۔ جب کہ امرت سروور اسکیم (Amrit Sarovar) کے تحت اس کی بیرونی اطراف کو رنگین اور دلکش بنایا گیا ہے ۔ چنار کا ایک خوبصورت پیڑ بھی اس چشمے کے پاس موجود ہے، جس کے سایہ سے یہ مزید پرکشش بنا ہوا ہے ۔ کئیں تعلیمی ادارے سیّر و تفریح اور تاریخی و مذہبی سفر کرنے کے غرض سے سال بھر یہاں آتے رہتے ہیں ۔
روایات کے مطابق حضرت شیخ العالم ؒ کو حجامت کی ضرورت پڑی، تو اس وقت شاعرون نامی حجام نے اس سے فقیر سمجھ کر اور معاوضہ نہ ملنے کے خدشہ سے حجامت کرنے سے لعت و لعل سے کام لیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ جب وہ حجام کچھ مسافت آگے چلا، تو اس نے تھیلے میں رکھا ہوا حجامت کا سامان گُھم پایا، وہ واپس دوڑتے ہوئے ولی کامل شیخ العالم ؒ کے زانوئے حاضر ہوئے اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا ۔ جب حجامت کرنے پر تیار ہوا تو پانی کی عدم دستیابی کا بہانہ بنایا ۔ لیکن ولی کامل نے حجام کے کسی اوزار (استرے) کو اپنے مبارک ہاتھوں میں لیا، اور زمین پر ضرب مارتے ہی پانی پھوٹ پڑا جس نے بعد میں چشمہ کی صورت اختیار کیں ہے ۔ اور یہ چشمہ تا دم تحریر رواں دواں ہے ۔
اسی طرح کی ایک اور روایت بزرگوں سے سننے میں آئی ہے کہ جب ولی کامل حضرت شیخ العالم ؒ کو آگ جلانے کی ضرورت آپہنچی، تو آپ ؒ نے شہتوت کی ایک لکڑی کا ٹکڑا لے لیا ۔ جب یہ ٹکڑا جلانے کے کام نہ آیا تو آپ ؒ نے اس سے پھینک کر فرمایا کہ
*” نہ ژہ گوڈ، نہ ژہ تہور “*
یعنی نہ اس کی جڑیں، نہ نوک (سرا) ہو ( Neither roots nor tip ) اور آج کے تاریخ میں بھی شہتوت کا یہ پودا یہاں تقریباً کہیں ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے ۔ جو تقریباً 600 سال پرانا ہے ۔
یہاں کے مقامی لوگ آپؒ کا عرس نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ کئیں دہائیوں سے مناتے آئے ہیں ۔ جو سخت سردی کے موسم میں ہوتا ہے ۔ اور اس بار 26 جمادی الأول ( 29 نومبر) یعنی جمعہ کو منایا جاۓ گا ۔ اس دوران عقیدت مند صبح نمازِ فجر کے بعد ہی اورادِ فاتحہ، ختمات المعظمات اور روح پرور مجلس کی ذکر سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ اور روحانی مجلس کے اس پُر نور ماحول سے فیضیاب ہو جاتے ہیں ۔ لیکن یہاں آپؒ کے کسی تبرکات کی زیارت نہیں ہوتی ہے ۔ جب کہ شام کو مقامی بستیوں کی مستورات، کشمیر کی اپنی رسم کے مطابق اس زیارت گاہ پر تہری (cooked yellow rice) لا کر عقیدت مندوں، غریبوں، مسکینوں، بھوکوں اور مسافروں میں تقسیم کرتی ہیں ۔
دیکھا جائے تو آج بھی اس قدیم زیارت گاہ پر عقیدت مندوں کا تانتا باندھا ہوتا ہے ۔ اور اکثر عقیدت مند خصوصی طور پر جمعرات کے روز یہاں شب خوانی کے لئے آتے ہیں ۔ مشہور و معروف محقق، مصنف، ڈاکٹر نثار احمد بٹ ترالی نے اپنی مشہور تصنیف ” آئینہ ترال ” میں بھی موضع ہاری پاری گام میں واقع اس قدیم زیارت گاہ کی ذکر بڑی خوبصورت اور دلکش انداز میں کی ہے ۔
الغرض خلاصہ کلام یہی ہے کہ حضرت شیخ نور الدین نورانی ؒ کی حیات مبارک و خدمات کو ایک نئے سرے سے اُجاگر کرنے کی ضرورت ہیں اور اس سے دوبارہ تحقیق (Revisiting) کرنے کی ضرورت آپہنچی ہے ۔ جو آج کے دور میں بھی بالکل ہم آہنگ ہیں ۔ تاکہ آپ ؒ کی مقدس ذات سے نہ صرف نئی نسل کو آگاہ کیا جائے بلکہ آپؒ کے قول اور فعل پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرائی جائے، جو سب سے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔