Blogs & Articles

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

نور جونیجو

میر تقی میر اٹھارہویں صدی کے انتہائی اہم مدبر اور کلاسیکل شاعر ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف اردو ادب بلکہ اردو ڈکشن اور لسانیات کو بھی نیا موڑ بخشا ہے۔ جنہوں نے اردو ادب کو کلیدی لغت دی اور کلی طور پہ فکر اور فن کو جدت بخشی۔ جس سے اردو ادب نے اپنی الگ حیثیت حاصل کی اور مقبولیت پروان چڑھی۔ اور اس دور کی مقبول ترین زبان فارسی کو نہ صرف ٹکر دی بلکہ اردو زبان کو اس کے مدمقابل لا کر کھڑا کر دیا۔

میر کی شاعری محبت، خواہشات، رومانس، فرد کی اندرونی محرومیوں، فلسفیانہ فکر اور صوفیانہ سوچ تک ہی محدود نہیں ہے مگر اس کے علاوہ اس دور کی سیاسی سماجی حالتوں اور تحریکوں کی حرکات کی تشکیل اور ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت بھی اختیار کی۔ میر کے کام نے فکری بنیاد، تخلیقی قدر اور اردو کی آنے والی نسلوں پہ یقیناً گہرا اثر ڈالا ہے۔

میر تقی میر کا شمار اردو ادب کی تاریخ میں عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔ اور ان کی سوانح حیات ”ذکر میر“ اردو شاعروں میں سے لکھی جانے والی پہلی سوانح حیات ہے جس کا شمار دنیائے ادب میں لکھی جانے والی شاہکار سوانح حیات میں ہوتا ہے۔

”ذکر میر“ اصل میں دو اہم حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلے حصے میں میر تقی میر اپنے بچپن، والدین کی یادگشت، ابتدائی تعلیم و تربیت، فکری اور تعلیم و تدریس کے اساتذہ کے متعلق باتیں، ان کے والد کی اپنے مریدوں سے گفتگو اور ان لمحات کی یاداشت پر مبنی ہے جن کا میر کی شخصیت پر اثر ہوا ہے۔

سوانح حیات کے دوسرے حصے میں ہمعصر دور یعنی ہندوستان کے تاریخی پہلوؤں پہ بات کی گئی ہے جس میں ان کے والد کے گزر جانے کے بعد کی صورتحال، نادر شاہ کے حملوں، احمد شاہ درانی کے حملے فتنہ بازی اور فسطائیت کے واقعات اور ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کے اندرونی جھگڑوں سے بھری پڑی ہے۔

میر تقی میر بچپن سے ہی درد و رنج سے آشنا ہو چکے تھے، مصیبتیں اور نفسیاتی الجھاؤ انہیں بچپن سے ہی وراثت میں ملے تھے، اس کا سبب ان کے والد کا میر کی کم عمری میں گزر جانا تھا۔ ان سب مریدوں نے میر سے منہ پھیر لیا تھا جو ان کے پیروں کی دھول کو ان کے والد کی زندگی میں ہی خاک شفا سمجھتے تھے۔ سماجی و طبقاتی اونچ نیچ، استحصالی برتاؤ نے میر کے رویوں کو شدید تناؤ اور غصے سے بھر دیا تھا، سنجیدگی اور درد ان کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگے، وہ ساری نا امیدی ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ ذکر میر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ میر جس پر قصیدہ گو ہونا، درباری شاعر، مذہبی اور صوفی مت کا پرچارک جیسے الزامات عائد تھے اس نے اپنے شعر اور سوانح حیات کے موضوع کا چناؤ کس قدر فکر انگیز طریقے سے کیا ہے۔ جس میں تصوف، اخلاقیات، طبقاتی استحصال، جنگی فن اور انسانی برتاؤ کے المیے اور کمی کو شعر و غزل میں باکمال طریقے سے سمجھایا ہے۔

حالانکہ اردو ادب میں یہ بحث موجود رہی ہے کہ ”ذکر میر“ سوانح حیات کے مطلوب معیار، قدر اور فنی اعتبار سے ادب کے پیمانے پہ پورا نہیں اترتی۔ جو کہ سوانح حیات کو لے کر ایک سوال چھوڑتا ہے۔ ذکر میر کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نہ صرف شخصی پہ داخلی تجربات ہیں مگر سیاسی سماجی اور فرق کی کہانی بھی ہے۔ اور موضوع کا بیانیہ، گفتگو کا اسلوب اور روانی کا انداز شاعرانہ، تخلیقی اور اتنا دلفریب ہے کہ پڑھنے والوں کو واقعات اور حالتوں سے اپنی ذات کا تعلق جڑتے ہوئے محسوس ہو گا۔ اسلوب و نثر کی روانی اور کہانی کا بیانیہ ان کو ہر طرح کی پابندی سے آزاد کر دیتا ہے۔

ذکر میر کی تمام موضوعاتی ترکیب اور فن کی خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اس سوانح کا لکھاری خود بر صغیر کا بہت ہی مدبر اور بڑا شاعر ہے۔ ایک شاعر کی آنکھ سے سیاسی سماجی اور نفسیاتی حالتوں پر تبصرہ موضوع کو معنویت اور ادراک میسر کیے دیتا ہے۔

اس سوانح حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی سوانح حیات ہے جس میں میر بطور شاعر اور ان کی ذاتی زندگی کے تجربات کے پہلو غائب ہیں۔ وہ سارے نقطے جو عام طور پہ کسی بھی سوانح حیات میں سرفہرست ہوتے ہیں یہاں پس پردہ ہو جاتے ہیں۔ سوانح حیات کے پہلے اور دوسرے حصے میں مغلیہ سلطنت کے اندرونی تضادات، جنگ کے پیداواری اسباب اور سماج پہ پڑنے والے اثرات کی راز افشانی کی گئی ہے۔ اور ذاتی زندگی کا محور بھی ان سماجی المیوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ہی خوبی ہے جس نے ذکر میر کو روایتی سوانح حیات ادب سے الگ کر رکھا ہے۔ موضوع واقعات حالتیں اور کیفیات کو منتخب کرنا اور ان کا اظہار اسے غیر روایتی اور زمینی حقائق سے جوڑے رکھتا ہے۔

میر تقی میر کی کہانی در حقیقت دلی کی کہانی ہے۔ دلی کا عروج، اس کی تباہی، دلی کے راستے راہیں، میر کے بیانیے کا موضوع ہے۔ جیسے میر صاحب کہتے ہیں۔

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

ایک معروف سندھی شاعر کے بقول ”میر کی شاعری موضوعاتی حوالے سے مکمل ہے مگر اس کے اشعار میں ہندوستان کہیں بھی نہیں ہے جیسے ہم سندھیوں کے پاس سندھ موجود ہے۔“ جب کہ ”ذکر میر“ اور ”کلیاتِ میر“ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ میر تقی میر کے پاس تو صرف ہندوستان ہی ہے جو دلی کی صورت میں ان کی دل میں دھڑک رہا ہے۔ دلی کا عروج و زوال، جاہ و جلال کی کہانی کو نوحہ گری کا لبادہ اوڑھائے اپنے اندر سے منسوب کر کہ پیش کیا ہے۔ جیسے یہ شعر

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

سیاسی سرگرمی میں مبتلا ہونا اور سیاسی شعور کا ہونا دو جدا صورتیں ہیں۔ کسی بھی فنکار کے لیے ہمیشہ سیاسی کارکن ہونا ضروری نہیں ہوتا حتیٰ کے سیاسی باشعور ہونا اور تاریخ کا ادراک ہونا فنکار کی تخلیقی صلاحیت کو بڑھاؤ دیتا ہے۔ (میر تقی میر۔ خلیق حارث)

”ذکر میر“ سے تاریخی اور سیاسی شعور کا اندازہ اور ان اشعار سے دلی سے محبت اور انسیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ البتہ سوانح حیات ادب کے معیار اور فن کے اصولوں کے پرتیک تنقید کا بحث بنی رہی ہے مگر اس نے روایتی سوانح حیات کے اصولوں کو رد کیا ہے۔ میر اس ساری کہانی میں ہوتے ہوئے بھی غائب رہا ہے۔ وہ بطور شاعر اپنی ذاتی زندگی اور تجربات پہ بات کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔ میر کی سوانح حیات در اصل دلی کی سوانح حیات ہے، ظاہر ہے جس سے میر خود کو دور کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

میر کہتے ہیں کہ ”لوگ موت کی راہ کی خوفناک کہانیاں کیوں بیان کرتے ہیں؟ حالانکہ وہ ایک دوسرے کہ ساتھ رہنے کے لیے ایک ہی راستے پہ چلتے ہیں۔ مجھے موت کا بالکل بھی خوف نہیں۔ میری زندگی میں دو محبتیں ہیں۔ ایک قمرالنساء دوسری دلی، ایک نے مجھے تباہ کیا دوسری میرے لیے خود تباہ ہو گئی۔“ (ذکر میر۔ م۔ ت۔ م)

کسی بھی صاحب النفس، سچے اور نڈر تخلیق کار کو اپنے وطن اور سرزمین سے جدا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ زمین سے جڑنے کے کتنے ہی طریقے ہوتے ہیں، سیاست اور ادب اس کے دو مضبوط پہلو ہیں۔ پر ایسا نہیں ہے کہ دوسرے طریقے، شعبے اور راستوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ میر بھی زمین سے جڑا ہوا شاعر ہے اور یقیناً اس زمین کی صورت دلی ہے۔ جس کے دل فریب لینڈ اسکیپ نے نہ جانے کتنے تخلیق کاروں اور تاریخ دانوں کو موہت کیا ہے۔ دلی کی لازوال روح نے کتنی ہی نسلوں اور ادیبوں، شاعروں اور تخلیق کاروں کی جمالیاتی اور فکری قابلیت کو جھنجھوڑا ہے۔

جیسے میر نے کہا
دل و دلی دونوں اگر ہیں خراب
پہ کچھ لطف اس اجڑے گھر میں بھی ہیں

دلی کو تاریخی طور پہ روم کے شہر اٹلی سے بھی قدیم کہا جا سکتا ہے، سکندر اعظم کے دور حکومت سے پہلے دلی خود مختار اور مشہور دارالحکومت تھا حالانکہ میر نہ صرف دلی پہ دلی میں رہنے والے لوگوں کے مزاج میں دلی کی تباہی کو باریک نظر سے دیکھتے رہے تھے اور بے ساختہ کہہ بھی دیتے تھے :

چور اچکے سکھ مرہٹے، شاہ گدا زر خواہاں ہیں
چین میں ہیں جو کچھ نہیں کرتے، فقر ہی اک دولت ہے اب
دیدۂ گریاں ہمارا نہر ہے
دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے
یاد زلف یار جی مارے ہے میرؔ
سانپ کے کاٹے کی سی یہ لہر ہے

رالف رسل کا شمار اردو کے عظیم دانشوروں میں سے ہوتا ہے جس کے لیے خوشونت سنگھ نے کہا تھا غالب کی زندگی کی تشریح اور تجزیے پر مکمل وسعت رکھنے والے صاحب خیال دانشور ہیں۔ ”thousand yearnings“ میں لکھا ہے کہ لکھنؤ کے کچھ نوابوں نے میر کو کسی محفل میں بلوایا اور اصرار کیا کہ وہ انہیں اپنا کلام سنائیں جسے میر مسلسل ٹالتے رہے پر جب اشتیاق بڑھتا رہا تو میر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ میری شاعری سمجھ نہیں سکیں گے، جس پر ان میں سے کسی نے کہا کہ ہم فارسی کے عظیم شاعر انوری اور خاقانی کے کلام کو سمجھتے اور سرہاتے ہیں۔ میر فوراً بولے مجھے یقین ہے آپ سمجھتے ہوں گے پر میری شاعری کو سمجھنے کے لیے آپ کو وہ مخصوص زبان آنی چاہیے، جو جامع مسجد کے باہر بولی جاتی ہے جو آپ کو نہیں آتی۔ رالف رسل۔

میر اپنے شہر سے دور چلے گئے، پر یہ شہر کبھی بھی ان کی دل و جان سے نہیں گیا۔ اس شہر کی گونج ہمیشہ اس کے ذہن کو ٹھٹھولتی رہی۔ گلیاں، رستے چوراہے اس کا گھیرا تنگ کرتے رہے۔ اور دلی روح عشق میں اشک بن کہ اس کی سسکیوں میں جواب دیتی رہی۔

خرابہ دلی کا دہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
وہیں میں کاش مر جاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

میر تقی میر لٹے ہوئے دل کا نوحہ ہیں۔ دلی کا عروج شان و شوکت میر کے کلام میں ہمیشہ زندہ رہے گا وہ ذکر میر میں لٹے ہوئے دلی کے لیے لکھتے ہیں۔ ایک دن میں سیر پہ نکلا اور شہر کی تازہ ویرانی پہ ہر قدم پہ روتا ہوا عبرت حاصل کرتا ہوا گزرتا رہا۔ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا حیرت بڑھتی گئی گھر پہچان نہ سکا نہ ان کے آثار اور نہ ہی ان کے مالکان کا کوئی پتا چل سکا

از ہر کہ سخن کردم گفتم کہ این جا نیست
از ہر کہ نشان جستم گفتم کہ پئدا نیست

جس گلی کہ بارے میں معلوم کیا یہ جواب ملا کہ یہاں نہیں جس کا پتا پوچھا یہی جواب ملا معلوم نہیں۔ میر تقی میر ذکر میر میں ایک اور جگہ برباد دلی کے لیے لکھتے ہیں۔ نہ وہ بازار تھے جس کا کوئی بیان کیا جائے، نہ بازار کی رنگینیاں اور حسین لڑکے، وہ حسن کہاں تھا جس کی عبادت کرتا تھا؟ وہ عاشق مزاج کہاں چلے گئے؟ وہ جوان گزر گئے، پیر اور پارسا وہ جگہ چھوڑ چلے، بڑے عالیشان محل خراب ہو گئے، گلیاں ناکارہ بن گئیں، ہر طرف وحشت پھیلی ہوئی تھی وہ سب دیکھ کہ مجھے استاد کی رباعی یاد آ گئی
افتاد گزارم جو ویران طوس
دیدیم چدے نشتہ برجائے خروس
گفتم چے خبرداری اڑین ویرانہ
گفتہ خبر اینست کہ افسوس افسوس
ترجمہ۔ میرا گزر طوس شہر کی ویرانی سے ہوا، میں نے دیکھا مرغ کی جگہ پہ الو بیٹھا ہوا تھا اس کو میں نے بولا اس ویرانی کا کوئی حال بتا کہنے لگا بس اتنا پتا ہے کہ افسوس افسوس۔


Visit: Valley Vision News

Show More

Online Editor "Valley Vision"

Valley Vision News is your trusted source for authentic and unbiased news from the heart of Kashmir and beyond. We cover breaking news, culture, politics, and stories that matter, connecting local voices to global perspectives. Stay informed with us! "Empower your vision with truth, for every story has the power to change the world."

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button