شکریہ جسٹس چندرا چوڈ ! ایوانِ عدل کی شمع ِفروزاں
از:ش،م ،احمد
گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ کے ۵۰؍ ویں چیف جسٹس آف انڈیا جناب جسٹس دھنن جیا یشونت چندرا چوڈ( ڈی وائی چندرا چوڈ) ۶۵؍ سال کی عمر میں اپنے منصبِ عالیہ سے پورے عزت واحترام کے ساتھ فارغ ہوئے ۔ دُعا ہے کہ آپ کی مابعد ریٹائر منٹ زندگی صحت مندی ‘سلامتی اور خوش عنوانی سے گزرے۔ ملک کے ۵۱؍ویں چیف جسٹس کامنصب اب جسٹس جناب سنجیو کھنہ نے سنبھا لاہوا ہے۔ چند دن قبل وظیفہ یابی کا مرتبہ پانے والے جسٹس چندرا چوڈ نے چھ سال قبل مئی ۲۰۱۶ کو سپریم کورٹ میں بطورجج قدم رکھا تھا۔آپ نے پہلے دن سے لے کر اخیر تک جمہوریت کے تیسرے مرکزی ستون پر اپنی بہترین اور متاثر کن کارکردگی سے گہر ی چھاپ چھوڑدی کہ ملکی عدلیہ کی تاریخ اب اُنہیں ہمیشہ قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے گی۔ یہ بات زبان زدِعام ہے کہ کورٹ روم میں جج کی کرسی پر براجمان ہوکر جسٹس چندارا چوڑ عدالت کا عزت ووقار ہمیشہ بلند کرتے رہے‘ ہر حال انصاف کا ترازو تھامتے رہے ‘ اپنےوسیع الاثر عادلانہ کاوشوں سے ملک کی آزاد عدلیہ پر عام شہریوں کا اعتماد اور وشواس اپنے پیش روؤں کی مانند بڑھاتے رہے۔ ظاہر ہے اپنے فرائض بطریقِ اَحسن نبھاکر آپ نے ہر ضروری کام کیا کہ آج زمانے کی زبان اُن کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہے۔۔۔آپ کی عدالت میں جو بھی اہم مقدمات پیش ہوئے‘ اُن کے فیصلے آپ نے حق سچ کی طرف داری میں دے کر مقدس عدالتی روایات کا پاس ولحاظ کیا‘ حالات متقاضی ہوئے تو تحفظ وترویجِ آئین کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیا‘ قانون کی حکمرانی کا سکہ بھی چلایا‘ قانون کے سامنے سب کی برابری کااصو ل بھی منوایا‘شہریوں کوآئین ِہند میں دے گئے بنیادی حقوق کا دفاع بھی کیا‘ شخصی آزادیوں کی مشعل بھی فروزاں کئے رکھی ‘ مساوات کے میزان کے دونوں پلڑوں میں توازن بھی قائم ودائم رکھا ‘ سب سے بڑھ کرریاست کے جمہوری
ا ورسیکولرکردار کی محافظت میں اپنے تمام تر قوائے عقلی وعلمی ‘ عدالتی بصیرتوں اور استدلالوں کو بڑی خوب صورتی سے بروئے کار لا یا۔۔۔ اس ساری کدوکاوش سےملک کے آزاد عدلیہ پر عوام کا اعتماد مزید بڑھ جانا قدرتی امر ہے۔سپریم کورٹ آنے سے قبل آپ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔البتہ عدل گستری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپنے بعض لینڈ مارک فیصلے جسٹس چندرا چوڈ صاحب کی متاثر کن انقلابی شبیہ بنانے میں میل کا پتھر ثابت ہوئے اور اُنہی کے تعلق سے آپ زیادہ یاد آتے رہیں گے۔ ان اہم فیصلوں کوتاریخ ہمیشہ فخراً یاد رکھے گی۔
۹؍نومبر۲۰۲۲ کو ترقی پاکر آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی سب سے بڑی عدالت کے اعلیٰ ترین منصبِِ عدل یعنی چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوئے ‘ ۱۰؍نومبر۲۰۲۴ تک آپ عدالتی فرائض دوسال تک اپنی منفرد شبیہ اورانقلابی شعور کے ساتھ انجام دیتے رہے ۔ عدالت عظمیٰ میں اپنی آٹھ سالہ مدتِ کار میں آپ نےکل ملاکر ۶۱۳؍ فیصلے بقلم ِخود رقم کئے‘جن میں بہ حیثیت قاضی القضاآپ کے زائدا ز۹۰؍ ججمنٹ بھی شامل ہیں۔ ہائی پروفائل بابری مسجد رام جنم بھومی قضیے کا حتمی فیصلہ جیوری کے جن پانچ ممبران نے کامل اتفاقِ رائے سے سنایا تھا‘ اُس جیوری میںجسٹس چندراچوڈ بھی شامل تھے۔علاوہ بریں دفعہ ۳۷۰ اور‘ ۳۵ ؍اے کی پارلیمانی تنسیخ پر عدالتی مہر ثبت کر نے کے علاوہ جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن کے انعقاد اورریاستی درجے کی بحالی کا فیصلہ لے کر آپ نےجموں کشمیر میں جمہوریت کے واپسی اور عوامی حکومت بننےکی راہ ہموار کی ۔اس کے لئے جموں کشمیرکے عوام آکے بے حد ممنون ومشکور ہیں ۔ مزید برآںالیکٹورل بانڈز کی قانونی حیثیت ‘ بلڈوزرجسٹس کی انہدامی کارروائیوں سے متعلق کیس کی شنوائی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی برقراری جیسے پیچیدہ مقدمات کے تاریخ ساز فیصلوں کا سہرا بھی جسٹس موصوف کے سر ہی جاتا ہے ۔ ان تمام غیر معمولی فیصلوں کے اپنے دُور رس اثرات او رقانونی مضمرات کےعلاوانہیںاہم عدالتی نظیروںاور قانونی حوالوں کی صورت میں ہمیشہ بار اور بنچ میں دہرایا جاتا رہے گا۔اپنے عدالتی کیرئر میں ملک بھر میںجسٹس (ریٹائرڈ) چندراچوڈ صاحب نے اپنے اَن گنت مداح پیداکئے جو اُنہیں ایک اعلیٰ پایہ کا ماہرِ قانون ‘ ایک مثالی روشن خیال انسان‘ ذہانت وفطانت کی مالک ہستی اور تحمل مزاجی والی بے باک شخصیت مانتے ہیں لیکن یہ کہنا خلاف ِ حقیقت ہوگا کہ اُن کا کوئی ناقد ہی نہیں ۔آج کی تاریخ میں سبکدوش ہوئے جسٹس صاحب کے قلیل التعداد ناقدین بھی ہیںجواُن کے دئے گئے بعض فیصلوں پر نقد وبصر کی بساط بچھائے بیٹھےہیں‘ مگر دنیائے قانون میں اُن کے چاہنے والوں کی تعداد کے مقابلے میں ناقدین آٹے میں نمک کے برا بر بھی نہیں ۔ بہر صورت ہرانسان محاسن اور معائب کا مجموعہ ہوتاہےلیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی میں محاسن کا راج ہے یا معائب کا غلبہ۔
یہ بات محتاجِ تشریح نہیں کہ ہر دوسرے فردِ بشر کی طرح ایک جج بھی اول وآخر انسان ہوتا ہے ‘ ایک پاکستان کوچھوڑ کر دنیا بھر میں جج کہیں بھی کوئی ملکوتی وجود یا آسمانی مخلوق نہیں ہوتا‘ اسی دھرتی کا باسی ہوتا ہے ‘اس کی بھی ذاتی پسند وناپسند ہوتی ہے ِ ‘ اُس کی نجی زندگی بھی خوبیوں اورخامیوں کی آمیزش سے مرکب ہوتی ہے۔ البتہ منصفی کے کردار میںاور انصاف کی گدی پر بیٹھ کر اُس کے سپرد بلا تشبیہ خدا کی نیابت کا کام ہوتا ہے ‘ اس لئےعدل گستری کو ایک عام پیشے سے زیادہ ایک مقدس وظیفہ ٔ عمل مانا جاتا ہے۔ اللہ کا ایک صفاتی نام العدل ہے۔ یہ صفاتی نام ا س بات کی طرف بلیغ اشارہ ہے کہ روئے زمین پر انسان کو نہ عدل کی شاہراہ کو کبھی ترک کرنی چاہیے کہ ا س کی منزلِ حیات کھوٹی ہو جائے اور نہ کسی صورت انصاف سے دامن جھاڑنا چاہیے کہ انسانی نسل اخلاقیات کے لباس سےمحروم ہوکر رہے۔ چوں کہ قدرت نے کائنات کو کچھ اس ترتیب سے بنایا ہے کہ زمین پر رہتے ہوئے انسان کو نہ صر ف زندگی کے اسباب اوروسائل کی ضرورت مسلسل لاحق ر ہے گی بلکہ اُن کے حصول یاان سے استفادے کی کشمکش بھی اس کے لئے جینے کی شہ رَگ بنی رہے گی۔ کشمکش ِزندگانی کی اس کھینچا تانی میں اگرانسان کا پالا سُوئے اتفاق سے دوسرے انسان کے پیدا کردہ ظلم ‘ استحصال‘ خود غرضی‘ لوٹ کھسوٹ‘ من وتُو جیسے اختلاف کےخار زار سے پڑے یاجس کی لاٹھی اس کی بھینس کے وحشی قانون سے واسطہ پڑے تو اُس کے بچاؤ میں اجتماعی طور طے شدہ قوانین وضوابط اس کاواحد سہارا ثابت ہوتےہیں ۔ وہ اپنے بھلے کے لئے بصد دل وجان مسلمہ قانون اورضابطے کی پیروی کر نے پر مجبور ہوتا ہے تاکہ قانون اور امن وشانتی کی ڈ گر پر رہ کر اس کا انفرادی بھلا بھی ہو اور اجتماعی خیر کی فضا بھی قائم رہے مگر کبھی کبھار لاکھ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان کی خود غرضی ‘ لالچ ‘ ظلم اورفریب‘ ہم ہستی اس کے سفر حیات میں سدِ راہ بنتی ہے ۔اس نزاعی مسئلے سے نمٹنے کے لئے عدل وانصاف کا ادارہ یعنی ’’ایوان ِ عدل ‘‘ مظلوم کو ظالم کے دست برد سے بچانے اور قانون کی بالادستی قائم کر نے کی غرض سے ایک میرِ عدل مقرر کرتا ہے ۔ یوں یہ ایک تثلیث بنتی ہے ۔۔۔ نظریۂ عدل ِ‘ ایوان عدل ‘ عادل یا منصف۔۔۔ عدالتی نظام اسی ناگزیر انسانی ضرورت کو پورا کر نے کے لئے قدیم زمانوں سے آج تک پورا کر تارہاہے۔ بلاشبہ عدل گستری ہر اعتبار سے ایک نازک کام ہے اور ہردور میں اس باب میں زیادہ تر جج صاحبان قانو ن و انصاف کی پگڈنڈی پر اپنے قدم پھونک پھونک کر ڈالتے رہے ہیں تاکہ کسی کا حق مارا جائے نہ کسی کے سینےمیں خواہ مخواہ ظلم کا خنجر پیوست ہو مگر ہمیں ماننا ہوگا کہ لاکھ احتیاط کے باوجود انسان پھر بھی غلطیوں کا پتلاہے۔ بنابریں اگر کسی ایک جج صاحب سے بشری تقاضوں کے تحت انساف دیتے ہوئے اجتہادی لغزش سرزد ہو‘ وہ اپنی عدالتی دانش اورزیرکی کے باوجود نادانستہ ٹھوکر کھابیٹھے ‘ کسی اجتہادی غلطی کا مرتکب ہوکر رہے ‘ سہو اً اُس کا فیصلہ انصاف کے صراط مسقیم سے ہٹا ہو ا محسوس ہو تو ساری کی ساری عدالت بے اعتبار نہیں ٹھہرتی۔
جب ہم ان ٹھوس حقائق کی روشنی میں ملک کی آزادعدالتوں کاسرسری جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے اُونچا اور سینہ پھول جاتا ہے کہ بہ حیثیت مجموعی آزاد عدلیہ کی برقراری میں آج تک اپنے اپنے دایرہ ٔ اثر میں تمام جج صاحبان کا کنٹری بیوشن آب ِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ بایں ہمہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ تاریخ اسی خوش نصیب شخص کو کامیاب جج ہونے کا تمغۂ امتیاز دے گی جو بطور میرِ عدل قانونی موشگافیوں کا بھر پورفہم وادراک رکھتا ہو ‘ جو انسانی طبائع کے حال احوال جانچنے والے ماہر نفسیات سےبڑھ کر انسانی فکر وعمل کے پس پردہ اصل مقصد یت سمجھنےمیں مہارتِ تامہ رکھتا ہو‘ جو انصاف کی باریکیوں اور قانونی منشا کی نزاکتوں کے حقائق سے بہرہ ور ہو ‘جو عدل کی مورتی کی آنکھوں پر بندھی سیاہ پٹی کو حق وصداقت کی بینائی اور اپنے زیب تن کئے ہوئےکالے جج گاؤن کو روشن ضمیری اور بیدار مغزی کی ڈھال پر محمول کر تاہو ‘ جو حاکم ومحکوم ‘ ظالم ومظلو م اور مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان بے لاگ انصاف کاعلم بلند رکھنے کے غیر جانب دارانہ ہنرا ورفن میں ید طولیٰ رکھتاہو ‘ جوقدم قدم اپنا کام بنا کسی لومت لائم یا حکومتی اثر ورسوخ اور دبدبے سے بے نیاز ہو کرانجام دیتا ہو ‘ جو اپنے فریضےکی انجام دہی کو محض عبادت یا لابدی فریضۂ انسانیت سمجھ کر پوری ذہنی یکسوئی سے غیر جانب دارانہ انداز میںکام کررہا ہو ‘ جو کم مایہ سائل اور بے چارہ فریادی کو بلا کسی امتیاز و تفریق اور بغیر کسی بھید بھاؤ کے ہر قیمت پر بر وقت انصاف فراہم کرنے کی دلی خواہش رکھتاہو‘ جو استدلال کی قوت اور دلائل وبراہین کی طاقت کا لو ہا مانتابھی ہو اور مد مقابل فریق سے منواتا بھی ہو‘ اور سب سے بڑھ کر جویہ نہ دیکھتا ہو کہ کون اُس کے فیصلے سےخوش ہو تا ہے اور کون ناراض ہوتا ہے ‘ کسی بھی جھمیلے میں پڑے بغیر وہ منصفی کا ہمہ پہلو کردار نبھا نے میں صرف تقاضائے انصاف دیکھتا بھالتا ہو۔ منصف کے لئے ان لازمی اَوصاف کو ذہن نشین کر تے ہوئے جب ہم اپنی عدلیہ پر نگاہ دالتے ہیں تو بہ حیثیت مجموعی ہمیں حاضر سروس فاضل ججوں اور سبکدوش ججوں کی ا یک ایسی لاثانی کہکشاں نظر آتی ہے جس نے عدالتی چارہ جوئی کو چار چاند لگادئے۔اس تابندہ کہکشاں میں ملک کے مختلف ہائی کورٹوں سے لے کر سپریم کورٹ کے پچاس سبکدوش جج صاحبان کی لمبی فہرست بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس میں جسٹس(ریٹائرڈ) چندار چوڈ جیسے تاب ناک ماہر قانون ‘ بے باک انسان اور نڈرہستی بھی شامل ہیں۔ تاریخ گواہی دیتی رہے گی کہ جو فیصلے اُن کے رشحاتِ قلم کے رہین ِمنت ہیں ‘ اُن فیصلوں نے عدلیہ کی آبرو اور لاج ہی نہ رکھی بلکہ عدالتی کام کاج کو عام آدمی کی خواہشات کاآئینہ دار بھی بنایا۔ ان کا منصفانہ کردارملک وقوم کی اجتماعی بہتری اور برتری کے لئےراہ کشا ثابت ہوتا رہے گا ۔ اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ شاید جسٹس چندرا چوڈ جونیئر کی بے مثال قانون دانی اور بے لاگ انصاف دینے دلانے کی مخصوص اہلیت اور قابلیت میں اُ نہیں اپنے والد گرامی جسٹس( ریٹائرڈ ) یشونت وشنو چندراچوڈ سینئرسے وراثت میں ملی ہے جو ۱۹۷۸ تا۱۹۸۵چھ سال چارماہ کی طویل مدت تک چیف جسٹس آف سپریم کورٹ رہے اور زمانے کو اپنی بے پناہ جوڈیشل صلاحیتوں اور قابلیتوں سے متاثر کر کے چھوڑا ۔ ہم دوبارہ جسٹس ( ریٹائرڈ) چندرا چوڈ کے لئے نیک خواہشات سوغات پیش کرتے ہوئے اُنہیں سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔
Visit: Valley Vision News